پاکستان سے آموں کی برآمد کا سیزن شروع، مگر فائیٹو سینیٹری درآمدی شرائط کی تعمیل کا مسئلہ برقرار

اسلام آباد(پاک ترک نیوز)
پاکستانی آم کی فصل سندھ میں تیار ہے اور پنجاب میں بھی جلد پکنے والی قسمیں مارکیٹ تک پہنچنے لگی ہیں۔ مگر ملک سے آم کی یورپی یونین، ایران، امریکہ اور دیگر ممالک کو برآمدکو ایک مرتبہ پھر سخت قرنطینہ ، فوڈ سیفٹی معائنہ اور ضوابط کا سامنا ہے۔
وزارت غذائی تحفظ کا ماتحت محکمہ پلانٹ پروٹیکشن (ڈی پی پی) ملک سے زرعی اجناس اور پھلوں کی برآمد و درآمد کے موقع پر اس سلسلے میں بین الاقوامی قواعد وضوابط پر عملدرآمد یقینی بنانے کا ذمہ دار ہے ۔مختلف ممالک کے وضع کردہ قوانین کے مطابق پاکستان کی یورپی یونین، ایران، آسٹریلیا اور کوریا کو آم کی برآمد گرم پانی کے علاج کی فائٹو سینیٹری شرائط سے مشروط ہے۔ جب کہ جاپان کو برآمدات بخارات سے ہونے والی گرمی کے علاج کی شرط سے مشروط ہیں۔
امریکہ نے پاکستان سے آم کی درآمد کی اجازت صرف ہیوسٹن بندرگاہ پر دی ہے جہاں وہ پاکستان سے آم کی کھیپ کی آمد پر شعاع ریزی کرتا ہے اور پھراسے ملک میں داخلے کی اجازت ملتیہے۔ سخت اور ہائی فائٹو سینیٹری درآمدی حالات کی وجہ سے پاکستان کی جانب سے ان ممالک کو آم کی برآمداسکی برآمدیصلاحیت سے بہت کم ہے۔
محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 1.88 ملین میٹرک ٹن آم پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان کا آم کا برآمدی سیزن مئی کےدوسرے نصف حصے سے شروع ہوتا ہے اور ہر سال ستمبر کے پہلے ہفتے تک چلتا ہے۔ پاکستان 79 ممالک کو 0.13 سے 0.16 ملین ٹن کے قریب آم برآمد کرتا ہے۔ پاکستان کی آم کی اہم برآمدات افغانستان کو جاتی ہیں جو کہ تقریباً 0.05 ملین میٹرک ٹن ہے۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارات کو تقریباً 0.049 ملین میٹرک ٹن اور ایران کو تقریباً 0.030 سے.035 ملین میٹرک ٹن ہے۔ پاکستان یورپی یونین اور برطانیہ کو تقریباً 0.005 سے 0.006 میٹرک ٹن برآمد کرتا ہے۔حالانکہ پاکستان اپنی آم کی فصل کا نصف حصہ باآسانی برآمد کر سکتا ہے۔مگر ڈی پی پی کو انفراسٹرکچر اور قابل و تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی کاسامناہے جس کی وجہ سے وہ درآمد کنندہ ممالک کی فائیٹو سینیٹری درآمدی شرائط کی تعمیل کرنے سے قاصر ہے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More