صدر اردوان آئندہ انتخابات میں بھی واضح اکثریت حاصل کرسکتےہیں ،برطانوی اخبار

 

انقرہ (پاک ترک نیوز) گزشتہ روز ترک صدر رجب طیب اردوان کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کے اعلان کے بعد ترکیہ میں انتخابات کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں ۔ اس بیان کے تناظر میں معروف برطانوی اخبار ’’ دی اکانومسٹ ‘‘ کا تجزیہ ہے کہ ترکیہ میں ہونیوالے آئندہ انتخابات میں صدر اردوان کیخلاف اپوزیشن اتحاد کا جیتنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔
اخبارکے تجزیہ کے مطابق ترکیہ میں اس وقت ایجنڈے پر سب سے اوپر ترکیہ کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہیں ۔ترک صدر رجب طیب اردوان کے گزشتہ دنوں انتخابات کے مقررہ تاریخ سے چند ہفتے قبل بیان انتخابات کروانے سے متعلق بیان کے بعد اب نظریں انتخابات کی تاریخ کی جانب مرکوز ہو گئی ہیں۔ انتخابات سے قبل کروائے جانے والے سروئیز سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے اپوزیشن کے اتحاد سے بہت آگے ہونے کی واضح تصویر نظر آرہی ہے، لیکن یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ 6 جماعتوں کےاتحاد کے ابھی تک اپنے صدارتی امیدوار کے نام کا اعلان نہ کرنا بھی اپوزیشن کے لیے منفی فضاء پیدا کررہا ہے۔
آئندہ انتخابات میں صدراردوان کے مقابلے میں کس صدارتی امیدوار کے ابھر کر سامنے آنے سے متعلق روزنامہ دی اکانومسٹ کے مطابق اپوزیشن کو یہ انتخابات جیتنے کی ضرورت ہے لیکن اپوزیشن کی راہ میں ابھی بھی بڑی مشکلات موجود ہیں اور اپوزیشن کے درمیان ابھی بھی اختلافات موجود ہیں جن کو دور نہیں کیا جاسکا ہے ۔ اپوزیشن کے سامنے تین بڑی رکاوٹیں موجود ہیں ۔
اب جبکہ انتخابات میں صرف چند ماہ باقی رہ گئے ہیں تو صدر اردوان کے خلاف موجود ” ملت اتحاد” ابھی تک کوئی مشترکہ امیدوار کا نام پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ اگرچہ “ملت اتحاد ” میں موجود سب سے بڑی جماعت ری پبلیکن پیپلز پارٹی CHP کے چئیرمین کمال کلیچدار اولو صدارتی امیدوار بننے کیلئے بڑے پُرعظم دکھائی دیتے ہیں لیکن اسی اتحاد کی دوسری بڑی جماعت “گڈ پارٹی ” کی چیئر پرسن میرال آق شینر اس نام پر متفق دکھائی نہیں دیتی ہیں ۔ صدارتی امیدوار کے نام کے بارے میں “ملت اتحاد” میں دراڑیں نظر آ رہی ہیں۔
اگرچہ کمال کلیچدار اولو ایک “باصلاحیت منتظم ہیں لیکنCHP کے رہنما کمال کلیچدار اولو صدر اردوان کی تقریروں اور شعلہ بیانی کے سامنے ہلکے پڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان شعلہ بیانی کی وجہ سے کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا ۔
ملت اتحاد میں صدارتی امیدواروں میں استنبول بلدیہ کے مئیر اکرم امام اولو اور انقرہ بلدیہ کے مئیر منصور یاواش کے نام صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کرنے کے لیے دونوں کو اپنی اپنی مئیر شپ سے مستعفی ہونے کی ضرورت ہے ، اس کے علاوہ دونوں کے کئی ایک کمزور پوائنٹس موجود ہیں۔ اکرم امام اولو کا ستارہ 2019ء کے بلدیاتی انتخابات میں ابھر کر سامنے آیا تھا لیکن اب یہ ستارہ اپنی چمک دمک کھو چکا ہے ۔ منصور یاواش جو بڑے کٹر قسم کے ترک قومیت پسند ہیں کو کردوں کی جماعت HDP کے ووٹروں سے ووٹ حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے۔
حزب اختلاف کے اتحاد اردوان کے خلاف انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کردوں کی جماعت HDP کے ووٹوں کی اشد ضرورت ہے ۔ مضمون میں کہا گیا کہ CHP کردوں کی جماعت HDPکے اپنے ساتھ ملانے کی خواہاں ہے لیکن اپوزیشن کے اسی اتحاد میں شامل “گڈ پارٹی” اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم PKK کے سیاسی ونگ کے طور پر دیکھتی ہے اور اس کے ساتھ ایک ہی ٹیبل پر بیٹھنے سے گریز کررہی ہے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More