نیویارک (پاک ترک نیوز)
متحدہ عرب امارات اور یمن کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام سے اسرائیل کے مشرق وسطیٰ میں تنہائی کے خاتمے اور تعلقات کے حکومتوں سے آگے بڑھ کر سیاحت کے فروغ اور لوگوں کے درمیان دوستانہ تبادلے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔
امریکی میڈیا کی تازہ رپورٹ کے مطابق جب اسرائیل نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ 2020 میں سفارتی تعلقات کے قیام کا معاہدہ کیا تو اس نے کامیابی کا ایک برقی احساس پیدا کیا۔ اسرائیلی حکام کا خیال تھا کہ اسرائیل کے متحدہ عرب امارات اورساتھ ہی بحرین کے ساتھ نئے تعلقات حکومتوں سے آگے بڑھیں گے اور معاشرے کے وسیع معاہدے بن جائیں گے۔ جس سے بڑے پیمانے پر سیاحت اور لوگوں کے درمیان دوستانہ تبادلے شروع ہوں گے۔
لیکن ان معاہدوں کے بعد سے دو سال کے دوران خلیجی عرب سیاحوں کا اسرائیل میں متوقع سیلاب نہ آسکا۔ اگرچہ نصف ملین سے زیادہ اسرائیلی تیل سے مالا مال ابوظہبی اور فلک بوس عمارتوں سے بھرے دبئی پہنچ چکے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب اسرائیلی وزارت سیاحت کے مطابق گزشتہ سال کورونا وائرس کی سفری پابندیوں کو ختم کرنے کے بعد سے صرف 1,600 اماراتی شہری اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔اوروزارت یہ نہیں جانتی کہ کتنے بحرینیوں نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے کیونکہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔
اسرائیل میں عربی بولنے والے ٹور گائیڈز کے فورم کے سربراہ مرسی حجا نے کہا کہ "یہ اب بھی ایک بہت ہی عجیب اور حساس صورتحال ہے۔ کیونکہ اماراتیوں کو لگتا ہے کہ انہوں نے یہاں آ کر کچھ غلط کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اماراتی اور بحرینی سیاحوں کی کمی عرب دنیا میں اسرائیل کے دیرینہ امیج کے مسئلے کی عکاسی کرتی ہے اور ابراہم معاہدے کی حدود کو ظاہر کرتی ہے۔