اسرائیلی حکومت اور فوج کے درمیان دراڑیں بڑھنے لگیں

بیروت (پاک ترک نیوز)
اسرائیل کے فوجی ترجمان نے ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان بڑھتی ہوئی دراڑ کو بے نقاب کرتے ہوئے صیہونی حکومت کے غزہ کی پٹی میں حماس کو جنگ کے ذریعے ختم کرنے کے ہدف پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک کی اتحادی حکومت میں بھی دوریاں پیدا ہو گئی ہیں۔
نو ماہ کی جنگ کے بعد جس میں محصور انکلیو پر حکومت کرنے والے مسلح گروپ کو ختم کرنے کے نام پر 37,000 سے زیادہ فلسطینیشہید کئے جا چکے ہیں۔ ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے بدھ کے روز اسرائیل کے ایک نیوز چینل کو بتایا تھاکہ یہ کام ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا تھاکہ حماس کو تباہ کرنے یا حماس کو غائب کرنے کا یہ کاروبار۔ یہ عوام کی آنکھوں میںدھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ حماس ایک خیال ہے، حماس ایک جماعت ہے۔ یہ لوگوں کے دلوں میں پیوست ہے – جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ ہم حماس کو ختم کر سکتے ہیں وہ غلط ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری کے اس تبصرے کے بعد نیتن یاہو کا دفتر "غصے سے بھرا ہوا” ہے۔ مگر اس دراڑ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس جنگ میںصیہونی حکومت اور نیتن یاہو کی پالیسیاں کیا ہیں۔مگر زمین پر موجود فوج کہتی ہے کہ یہ حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔آج اس پر تبصرے کے لئےمتعدد رابطوں کے بعدنیتن یاہو کے دفتر نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا ہےکہ وزیر اعظم کی زیر صدارت سیکیورٹی کابینہ نے "حماس کی فوج اور حکومتی صلاحیتوں کی تباہی کو جنگ کے مقاصد میں سے ایک قرار دیا ہے۔ اور اسرائیلی فوج یقیناً اس کے لیے پرعزم ہے۔
فوجی بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہگاری کے تبصرے میں حماس کی تباہی کو ایک نظریہ اور ایک خیال کے طور پر کہا گیا تھا اور یہ بات اس نے بہت واضح اور واضح طور پر کہی تھی۔ "کوئی دوسرا دعوی چیزوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لے جا رہا ہے۔
نیتن یاہو کی حکومت کی طرف سے جنگ سے نمٹنے پر عدم اطمینان کے پہلے ہی کھلے نشانات سامنے آ چکے ہیں۔ یہ ایک ایسا اتحاد ہے جس میں دائیں بازو کے سخت گیر لوگ شامل ہیں جو حماس کے ساتھ کسی بھی قسم کے تصفیے کی مخالفت کرتے ہیں۔بینی گانٹز ایک سابق فوجی سربراہ اور مرکزیت پسند سیاست دان وزیر اعظم کے جنگ کے طرز عمل پر مایوسی کا حوالہ دیتے ہوئے اس ماہ کے شروع میں نیتن یاہو کی جنگی کابینہ سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ جبکہ بین الاقوامی سطح پر ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے کئی مہینوں سے مذاکرات، بشمول امریکی صدر جو بائیڈن کی اس ماہ پیش کی گئیتازہ تجویز تعطل کا شکار ہے۔
دوسری جانب نیتن یاہو نے اس ہفتے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں انسانی امداد کی فراہمی میں مدد کے لیے فوج کی جانب سے فوجی کاروائیوں میں وقفےکا اعلان کرنے کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے اوراسرائیلی وزیراعظم کےایک معاون نے کہا ہے کہ نیتن یاہو اس اعلان سے چوک گئے تھے۔مگر اسرائیلی ٹی وی سٹیشنوں نے نیتن یاہو کے حوالے سے یہ جملہ خوب اچھالا ہے کہ ـ” ہمارے ملک کے پاس ایک فوج ہے، نہ کہ فوج کے پاس ایک ملک ۔”

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More