اسلام آباد(پاک ترک نیوز) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ اگست سے پہلے ایرانی تیل کی اسمگلنگ کو بہت سے لوگ قانونی سمجھتے تھے۔ بے روزگاری کو بلوچستان میں اسمگلنگ کے جاری رہنے کی دلیل دی گئی ۔ جس کے لئے سرکاری ملازمتوںکو جان بوجھ کر خالی رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 2020 میں اس وقت کی حکومت نے بھی ایران سے مصنوعات کی سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا، جس کا تخمینہ اس وقت سالانہ 2 ارب ڈالر تھا۔سمگلنگ اور غیر ملکی کرنسی کی غیرقانونی تجارت پاکستان کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔
سینئر صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیاکہ مقامی حکام کی ملی بھگت سے اسمگل شدہ ایرانی تیل کی 27 ہزار گاڑیاں روزانہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہو رہی تھیں۔ ان گاڑیوں کے داخلے کے لئے متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو سوا لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے فی گاڑی رشوت دی جا رہی تھی۔ ڈپٹی کمشنر اسمگلنگ میں کردار ادا کرنے والوں کو بھی شیئرز دے رہے تھے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ بلوچستان کے راستے ملک کے دیگر حصوں میں اشیاء کی غیر قانونی سپلائی کے راستے تین سال قبل بند ہو گئے تھے۔ اس کے نتیجے میں 1674 غیر قانونی پی او ایل ریٹیل آؤٹ لیٹس سیل کیے گئے، 1155 ایف آئی آر درج کی گئیں اور کسٹمز ایکٹ کے تحت اثاثے منجمد کرنے کے لیے 781 درخواستیں دائر کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ ان گاڑیوں کی سرحد پار سے غیر قانونی نقل و حرکت تقریباً بند ہو چکی ہے، اگرچہ ابھی تک مکمل طور پر یہ اسمگلنگ نہیں رکی۔ انہوں نے کہا کہ عسکری اور سول قیادت نے اسمگلنگ کے خلاف فیصلہ کن مہم شروع کی۔ گزشتہ تین سال میں یہ ایسی دوسری مہم ہے لیکن اس بار کریک ڈاؤن شدید تھا۔ یہ میرا فیصلہ تھا کہ ایرانی تیل کی پاکستان اسمگلنگ کو روکا جائے جس پر پاک فوج نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ صرف 11 اشیاء کی صورت میں قومی خزانے کو ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں کی مد میں تقریباً 3.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے موقع پر آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کرنسی اسمگلنگ روکنے کے اقدامات سے آگاہ کیا تھا۔ انہیں آگاہ کیا کہ پاکستان نے اپنے زرمبادلہ کے کم ذخائر کو روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر کم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا عالمی قرض دہندہ پاکستان کو نیا قرض دے گا اگر انتخابات جنوری سے آگے جاتے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ سپیشل سرمایہ کاری سہولت کونسل فولڈ میں نئے علاقوں کو لانے کے لیے ابھی تک کوئی نیا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق سپیشل سرمایہ کاری سہولت کونسل ان شعبوں میں سرمایہ کاری اور نجکاری کی سہولت فراہم کرے گا، جن میں دفاع، زراعت، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اسٹریٹجک اقدامات، لاجسٹکس، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن اور توانائی شامل ہیں، لیکن ان تک محدود نہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں وکلاء ، ڈاکٹروں، صحافیوں،میڈیا مالکان اور ریٹیلرز پر ٹیکس لگانا چاہتا ہوں۔ سب کو واجب الادا ٹیکس دینے چاہئیں۔
انہوں نے جواب دیا کہ امکان یہ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ روابط رکھیں گے کیونکہ وہ دنیا بھر میں منتخب اور غیر منتخب دونوں حکومتوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان کا موجودہ آئی ایم ایف پروگرام اگلے سال 12 اپریل کو ختم ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ امیروں پر ٹیکس لگانے کا سوال آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر نے نہیں اٹھایا تھا بلکہ میں نے انہیں بتایا کہ پاکستان اپنے امیر لوگوں پر ٹیکس لگائے گا۔
فوج کے ماتحت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے کردار کو ان علاقوں تک بڑھانے کے بارے میں جن کی گورننگ قانون میں تعریف نہیں کی گئی ہے کے سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ بورڈ آف انویسٹمنٹ ترمیم شدہ ایکٹ وفاقی حکومت کو گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے کونسل کے دائرے میں کسی بھی نئے علاقے کو لانے کا مینڈیٹ دیتا ہے۔
نجکاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے نقصانات کو روکنے کے لیے اس سال دسمبر تک اپنی پالیسی کا خاکہ بنائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مختلف تجاویز زیر غور ہیں جن میں نجی شعبے کے ساتھ رعایتی معاہدوں پر دستخط کرنا اور ان کمپنیوں کو صوبوں کے حوالے کرنا شامل ہے۔