اسلام آباد(پاک ترک نیوز) سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس میں فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے فریقین کو سوالات کو جوابات تین ہفتوں جمع کروانے کی ہدیات کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام فریقین تسلیم کر رہے ہیں مکمل انکوائری نہیں ہوئی۔
سپریم کورٹ میں شوکت عزیز صدیقی کی اپیل پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل کونسل بہت طاقتور باڈی ہے اور کسی کو بھی طلب کرنے کا اختیار رکھتی ہے، کونسل بذات خود انکوائری ہے جبکہ سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ نہیں ہے وہ ایک آزاد ادارہ ہے لیکن ہم نے آئین بنانے والوں کے قائم کرنے والے توازن کو بھی برقرار رکھنا ہے۔
شوکت عزیز صدیقی کے وکیل ایڈوکیٹ حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کی کارروائی غیر آئینی قرار دے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ہم ایک سکے کو ہوا میں پھینک کر فیصلہ نہیں کر سکتے، اگر الزامات سچ ثابت نہیں ہوتے تو کیا ہوگا، اگر یہ طے نہیں ہوتا کہ الزامات سچے ہیں یا جھوٹے، اس کے بغیر ہم کس طرف جا سکتے ہیں لیکن ہم ان کیسز کے ذریعے مثال قائم کرنا چاہتے ہیں، الزامات پبلکی لگائے گئے اگر الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں انکوائری کے بعد تو کیا جج کو ہٹانے کا فیصلہ برقرار رہے گا، ہم نے جن پر الزامات لگایا گیا انکو فریق بنانے کا کہا، سچ کی کھوج کون لگائے گا اب، ہم مسئلے کا حل ڈھونڈ رہے ہیں، دوسری طرف سے یہ بات ہو سکتی ہے کہ الزامات کو پرکھا ہی نہیں گیا۔
وکیل شوکت صدیقی نے بتایا کہ حل یہ ہے کہ کونسل کی کارروائی اور صدر مملکت کی جانب سے جج کو ہٹانے کی کارروائی کالعدم قرار دی جائے، سپریم کورٹ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کے لیے کمیشن تشکیل دے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کیسے کمیشن تشکیل دیں، کیا ہم معاملہ دوبارہ کونسل کو بھیج دیں، دونوں میں سے کوئی سچ نہیں بتا رہا۔
وکیل فیض حمید خواجہ حارث نے بتایا کہ صرف پبلک تقریر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی خود مختاری اور جوڈیشل کونسل کا سوال ہے، کونسل کی کارروائی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، کونسل کی کارروائی میں تقاضے پورے نہیں کیے گئے، سپریم کورٹ ان حالات میں کیسا فیصلہ دے سکتی ہے، اٹارنی جنرل سے بھی پوچھ لیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا ایک جج کو ایسی تقریر کرنی چاہیے تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتے، ججز بار ایسوسی ایشن میں جاکر تقاریر کرتے ہیں، سوال تقریر کا نہیں بلکہ تقریر میں کی گئی گفتگو اصل معاملہ ہے، آرٹیکل 19ججز کے لیے نہیں ہے، ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ تقاریر کی اجازت نہیں دے سکتا، امریکا میں تو ججز بحث و مباحثہ میں حصہ لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم خود انکوائری کروا سکتے ہیں، بلاوجہ الزام لگانا کسی حکومت کے ماتحت ادارے پر بھی اچھی بات نہیں، جس پر الزام لگایا گیا میں اسے ادارہ نہیں بلکہ حکومت کے ماتحت ادارہ کہوں گا۔
وکیل شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پوری انکوائری کالعدم قرار دیکر معاملہ دوبارہ کونسل کو بھیجا جائے، جس پر چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا سپریم کورٹ ایسا کر سکتی ہے۔ وکیل شوکت عزیز صدیقی نے بتایا کہ کونسل نے مکمل انکوائری ہی نہیں کی۔
وکیل فیض حمید نے کہا کہ معاملہ دوبارہ کونسل کو نہیں بھیجا جا سکتا کیونکہ شوکت عزیز صدیقی کی بطور جج مدت بھی ختم ہو چکی، جو الزامات لگائے گئے وہ باتیں نہ کونسل کے جوابات میں کہی گئیں نہ ہی تقریر میں آئیں، شوکت عزیز صدیقی کی اپنی تقریر ہی کافی ہے کہ انھوں نے مس کنڈکٹ کا مظاہرہ کیا اور تقریر میں عدلیہ کی تضحیک کی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تقریر کرکے کیسے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی اور متعلقہ شق دکھائیں، آپ ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ پڑھ لیں۔ تقریر کو پبلسٹی نہیں بلکہ نشاندہی کرنے والے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، اگر ایک ادارے میں کرپشن ہو تو کسی جج کو کیا کرنا چاہیے۔
وکیل فیض حمید نے بتایا کہ اسے اپنے چیف جسٹس کو بتانا چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کسی چیف جسٹس کی بات تسلیم کرنے اور کسی جج کی بات تسلیم نہ کرنے کا کوئی معیار تو ہونا چاہیے، قوم اب کافی کچھ برداشت کر چکی ہے، ہماری تشویش ادارے کی ساکھ سے متعلق ہے، قوم کو سچ کا علم ہونا چاہیے، کیا آپ نہیں چاہتے سچ سامنے آنا چاہیے، ہم کارروائی کو کیسے آگے بڑھائیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل کونسل نے تو بغیر کارروائی کیے جج کو ہٹا دیا، اگر کوئی جج مجھے پسند نہیں تو کیا اسے بغیر انکوائری ایسے ہٹایا جاسکتا ہے، اگر کسی کی آنکھوں کے سامنے قتل ہو تو تب بھی قانونی طریقہ کار اپنایا جاتا ہے اور قانونی تقاضے پورے کرنا لازم ہے۔ تمام فریقین تسلیم کر رہے ہیں مکمل انکوائری نہیں ہوئی، جب کسی جج کیخلاف کارروائی ہوتی ہے تو پوچھا جاتا ہے اسکا شفاف ٹرائل کا حق کہاں جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کو بغیر انکوائری ہٹانا طے شدہ قانونی تقاضوں کے منافی ہے، عافیہ شہر بانوں کیس میں کہا گیا جب جج کو ہٹایا جائے یا استعفیٰ دیدیا جائے تو کارروائی نہیں ہو سکتی، ہم نے جج کو ہٹانے یا استعفا دینے پر کارروائی نہ کرنے کی پابندی کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کردی ہے، سپریم کورٹ عافیہ شہر بانوں کیس پر نظرثانی کرے، میری استدعا ہے کہ اس کیس کو بھی عافیہ شہر بانوں کیس کے تناظر میں دیگر کیسز کیساتھ منسلک کیا جائے۔ اگر کونسل کی کارروائی کالعدم قرار دی جاتی ہے تو شوکت صدیقی کی حیثیت بطور ریٹائرڈ جج ہو جائے گی۔