امریکی حکومت نے یونیورسٹی کیمپسز میں فلسطین کے حامی مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا جواز پیش کر دیا

نیویارک (پاک ترک نیوز)
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے اور غزہ کی پٹی میں جاری نسل کشی کے خاتمے کے مطالبے کے لیے کیمپسز میں احتجاجی مظاہروں اور دھرنا دینے والے طلبا کو دبانے کے لیے پولیس کی مدد لینےپر امریکی یونیورسٹیوں کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کرین جین پیئر نے پیرکی شب پریس بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ کیمپس میں پولیس کی موجودگی خود یونیورسٹیوں کے فیصلے پر مبنی ہے۔انہوں نے یونیورسٹیوں میں امریکی پولیس کی موجودگی اور اسرائیل مخالف طلباء کی گرفتاری پر بڑھتی ہوئی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے کہ وہ قانون کو کیسے نافذ کرے۔
جین پیئر نے گزشتہ دو ہفتوں میں ایک ہزار سے زائد طلبہ کی گرفتاری کا ذکر کیے بغیر کہاکہہم یہ کہتے رہتے ہیں کہ تمام امریکیوں کو پرامن احتجاج کرنے کا حق ہے۔ اور ساتھ ہی ہم کسی بھی یہود ی مخالف بیان بازی کی مخالفت کرتے ہیں
اس سے قبل امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے بھی ایسا ہی دعویٰ کیا تھا کہ ہم یقینی طور پر پرامن احتجاج کے حق کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن ہم اس مخالف سامی زبان کی بالکل مذمت کرتے ہیں جو ہم نے حال ہی میں سنی ہے اور ہم یقینی طور پر تمام نفرت انگیز تقاریر اور تشدد کی دھمکیوں کی مذمت کرتے ہیں۔
اسی قسمکی گفتگو امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن بھی اپنے تین روزہ دورہ چین سے واپسی پر صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کر چکے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہہمارے ملک میں یہ جمہوریت کی خصوصیات میں سے ایک ہے کہ شہری جب چاہیں اپنے خیالات، خدشات اور غصے کا اظہار کر سکتے ہیں، اور مجھے یقین ہے کہ یہ ملک کی طاقت اور جمہوریت کی طاقت کا مظہر ہے۔ ساتھ ہی انہوں نےفلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک حماس کے خلاف احتجاج نہ کرنے پر امریکی طلباء پر تنقید کرنے کے بعد اپنے آپ کو صیہونی حکومتکا حامی ہونے اور اپنی غزہ میں خونریزی کی حمایت کو بھی بے نقاب کیا۔
غزہ کی جنگ میں صیہونی حکومت کی حمایت کی واشنگٹن کی پالیسیوں کے خلاف طلباء اور پروفیسرز کی طرف سے ملک گیر احتجاج جاری ہے۔ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے کیمپس سے شروع ہونے والا احتجاج اب امریکہ کے دیگر کیمپس کے ساتھ ساتھ یورپ، آسٹریلیا اور ایشیا سمیت دنیا کے دیگر حصوں کے تعلیمی اداروں میں بھی پھیل چکا ہے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More