انقرہ (پاک ترک نیوز)
اس سال کے شروع میں استنبول میں روس اور یوکرین کے درمیان بحیرہ اسود کے اناج کا معاہدہ ماسکو اور کیف کے درمیان ثالث کے طور پر ترکیہ کے کردار کی بدولت تھا۔جبکہ بدقسمتی سے مغرب نے صرف اشتعال انگیزی کی ہے اور یوکرین روس جنگ میں ثالث بننے کی کوششیں کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
صدر رجب طیب اردوان نے اتوار کو دیر گئے مشرقی صوبہ ایرزورم میں نوجوانوں کے ساتھ ایک تقریب میں کہا کہ ہم نے 2022 میں یہ ثالثی کا کردار سنبھالا، اور ہم نے بحیرہ اسود کے اناج راہداری کو چلانے کا آغاز کیا۔انہوں نے بتایا کہ اس تاریخی معاہدے کے تحت یوکرین سے برآمد ہونے والے اناج کا تقریباً 44 فیصد یورپ کو ملا جب کہ ترکیہ کو 16 فیصد اور افریقی ممالک کو 14 فیصد ملا۔
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی طرف سے کم ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک خصوصاً افریقہ میں اناج اور کھاد بھیجنے کی تجویز کا حوالہ دیتے ہوئے اردوان نے کہا کہ ان کا ملک اس بات کو یقینی بنائے گا کہ روسی اناج سے بنا آٹا روس اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر افریقی ممالک کو بھیجا جائے۔
ترک صدر نے یہ بھی کہا کہ کھاد کی برآمد "کام کا زیادہ شدید حصہ” ہے۔ انہوں نے اس معاملے پر روس کے ساتھ ملکر اقدامات کرنے کی تصدیق کی۔
صدر نے بحیرہ اسود میں دریافت ہونے والے قدرتی گیس کے ذخائر پر بھی تبصرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس سال کی سب سے اہم پیش رفت میں سے ایک ہے۔صدر نے اعلان کیا کہ ترکی 2023 کی پہلی سہ ماہی کے دوران مذکورہ قدرتی گیس کا 540 بلین کیوبک میٹر استعمال کرے گا۔
اردوان نے کہا کہ ملک دفاعی صنعت میں بھی نمایاں پیش رفت کر رہا ہے۔ترکیہ نے دفاعی صنعت میں ایک ایسا جرات مندانہ اقدام کیا ہےجس کی بدولت اب امریکہ سمیت پورے مغرب سے سبھی کی نظریں ترکیہ کی طرف متوجہ ہوگئیں ہیں اوروہ ترکیہ سے یہ ٹیکنالوجی خریدنا چاہتے ہیں۔