90 روز میں الیکشن ہوں گے یا نہیں آئین اور قانون میں جنگ چھڑ گئی

 

 

 

 

تحریر: میاں افتخار رامے

میں روزانہ دن میں دو مرتبہ خان بابا کے ہوٹل پر چائے پینے لازمی جاتا ہوں۔ دن میں تو ہوٹل پر تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی لیکن رات کو ہوٹل پر رش نہیں ہوتا۔ بلکے جب میں آفس سے واپس آتا ہوں تو ایکا دوکا لوگ خان بابا کے ہوٹل پر موجود ہوتے ہیں ۔مجھے دیکھتے ہی خان بابا سمجھ جاتا ہے کہ صاحب کو کڑک والی چائے چاہیے۔ کل جب میں رات کو آفس سے واپسی پر خان بابا کے ہوٹل پر چائے پینے کے لیے رکا تو خان بابا نے کہا میاں صاحب آپ سے کچھ پوچھنا ہے میں نے کہا جی خان بابا پوچھیں کیا پوچھنا ہے۔ اس 70 سالہ بوڑھے کا کہنا تھا کہ میاں صاحب یہ الیکشن ہو گا یا نہیں صرف اتنا بتا دو۔ میں خان بابا کی بات سن کر ایک دفعہ تو چونک گیا کے چائے والا بھی تجسس میں ہے اسے بھی اپنے آئین اور قانون پر یقین نہیں۔ آئین کے مطابق تو 90 روز میں الیکشن کروانا ضروری ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے اس ملک میں آئین اور قانون کی مانتا کون ہے۔ اور یہ سب تو کمزور لوگوں کے لیے ہے طاقتور نا تو آئین کو مانتا اور نا ہی قانون کو۔ اور اس وقت بدقسمتی سے ملک میں ہو بھی یہ ہی رہا ہے۔

بطور صحافی جہاں تک میں جانتا ہوں 75سالہ تاریخ میں پاکستان میں آئین کی نہیں بلکے نظریہ ضرورت کی جیت ہوئی ہے۔ اور مجھے نہیں لگتا کے آنے والے وقت میں آئین پر عملدرآمد ہو گا بلکے اسے کاغذ کا ایک ٹکرا سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین اور قانون میں جنگ چھڑ گئی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ آئین جیتے گا یا پھر وہ مافیا جس کے ہاتھ میں قانون کی ڈوریاں ہیں۔ اگر آئین اپنی طاقت کا لوہا نا منوا سکا تو سمجھ جائیں کہ قانون کسی پر لاگو نہیں ہو گا اور سماجی معاہدہ کالعدم ہو جائے گا جس پر یہ معاشرے قائم ہے۔ پہلے ہی لوگ کا انصاف سے یقین آٹھ چکا ہے اگر ایسا ہوا تو شاید پھر ہم اس اندھیری گلی میں داخل ہو جائیں گے جہاں سے صدیوں تک واپسی ممکن نا ہو سکے۔

اس وقت کے موجودہ سیٹ اپ میں پاکستانی عوام عمران خان کو قابل اعتماد اور قابل بھروسہ سیاست دان سمجھ کر اس کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے لیکن مافیا اور کرپٹ سیاست دان اکھٹے ہو عمران خان کو اپنے راستے سے ہٹانے کی جہدوجہد میں لگے ہوئے ہیں لیکن ان کی ہر کوشش ناکام ہو جاتی ہے اب کی بار تو مقابلہ اتنا سخت ہے کہ چوہے بلی کے اس کھیل میں آئین اور قانون ہی آمنے سامنے آگئے ہیں۔

عمران خان کی طرز سیاست سے اس ملک کے ہزاروں افراد کو اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن پہلی مرتبہ کسی شخص نے امریکہ سے لیکر پاکستان تک سب ان کرداروں اور غداروں کو ننگا کر دیا ہے جو ملک اور آئین پر خود کو فوقیت دیتے تھے۔

عمران خان نے اسٹبلشمنٹ ۔ بیوروکریٹ ۔ سیاستدانوں اور بکاؤ صحافیوں تک کو ننگا کر دیا جنہوں نے پیسے کی خاطر اپنا ملک اور ضمیر تک بیچ دیا تھا۔ اب ان تمام ضمیر فروشوں۔ غداروں اور ملک کے دشمنوں کا نام بچہ بچہ جانتا ہے۔ اگر عمران خان سیاست میں نا آتا تو اس غلیظ دھندے میں ملوث منافق چہرے پوری قوم کے سامنے عیاں نا ہوتے۔

پاکستانی سیاست میں پتے کھیلنے والی فافیا روز ایک نیا پتہ پھینک دیتی ہے۔ جو خود ہی چند گھنٹوں بعد ناکام ہو جاتا ہے یا پھر اللہ پاک کی غیبی مدد کی وجہ سے فافیا کو الٹا منہ کی کھانا پڑتی ہے۔ اس وقت صورتحال اس قدر گھمبیر ہو چکی ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث مہنگائی آسماں کو چھونے لگی یے۔ روزمرہ زندگی کی عام اشیاء بھی سفید پوش طبقہ کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں ۔ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا مہنگائی کم نہیں ہو گی بلکے اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ سیاسی استحکام تب ہی آئے گا جب الیکشن ہوں گے اور الیکشن ہوں گے یا نہیں دیکھتے ہیں سفید عمارت اب آئین کا تحفظ کرتی ہے یا پھر نظریہ ضرورت سے تعاون ۔۔۔۔۔۔۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More