تحریر:حسن زبیر
1-سلطنت عثمانیہ کا زوال
سلطنت عثمانیہ نے جنوب مشرقی یورپ، مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ پر 600 سال سے زیادہ عرصے تک حکومت کی۔ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ ایک نیا رہنما مصطفیٰ کمال ابھرے جنہوں نے ترکی کی قومی تحریک کی قیادت کی، جس نے سرزمین ترکی کی تقسیم کے خلاف مزاحمت کی۔ مصطفیٰ کمال نے انقرہ میں صوبائی حکومت قائم کی۔ اس نے اتحادیوں کی بھیجی ہوئی افواج کو شکست دی۔ اتحادیوں اور ترکوں کے درمیان جنگ قومی تحریک 1923 تک جاری رہی، جب اتحادیوں اور مصطفیٰ کمال کے درمیان لوزان، سوئٹزرلینڈ میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔
یہ معاہدہ لوزان کے معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نے جدید دور کے ترکی کی سرحد کی حد بندی کی۔ معاہدہ لوزان کے تحت ترکی نے سلطنت عثمانیہ کے باقی ماندہ تمام دعوے ترک کر دیے اور بدلے میں اتحادیوں نے اپنی نئی سرحدوں کے اندر ترکی کی خودمختاری کو تسلیم کر لیا۔ خلافت عثمانیہ کا نظام ختم کر دیا گیا۔ آخری خلیفہ کو اپنے خاندان کے ساتھ جلاوطن کر دیا گیا۔ ان کے اثاثے ضبط کر لیے گئے۔ مذہب اسلام پر پابندی لگا دی گئی اور ترکی کو سیکولر ریاست بنا دیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق ترکی کو اپنا تیل کھودنے اور تلاش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور طے پایا کہ اسے اپنی ضروریات کے لیے دوسرے ممالک سے تیل درآمد کرنا ہوگا۔یورپ اور ایشیا میں قدرتی سرحد کے طور پر موجود آبنائے باسفورس کو بین الاقوامی گزرگاہ قرار دے دیا گیا جس کے بعد ترکی بحری جہازوں پر ٹیکس لگانے سے محروم کردیا گیا ۔
2- 2023میں کیا ہوگا؟
بین الاقوامی قانون کے مطابق لوزان کا معاہدہ 2023 میں ختم ہو جائے گا۔ جیسا کہ قانون میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی معاہدے پر 100 سال سے زیادہ عمل نہیں کیا جا سکتا۔صدر ایردان بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ترکی 2023 کے بعد ایک نئے دور میں داخل ہو گا۔
3-ترکی اپنا تیل خود نکال سکتا ہے۔
صنعتی انقلاب کے بعد سے تیل دنیا کا سب سے اہم توانائی کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اس کی مصنوعات جدید معاشرے کی بنیاد رکھتی ہیں۔یہ بنیادی طور پر بجلی کی صنعت کو توانائی فراہم کرتا ہے، گھروں کو گرمی دیتا ہے اور گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کے لیے ایندھن فراہم کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک جیسے سعودی عرب اور ایران کی معیشت کا انحصار صرف تیل کی برآمد پر ہے۔ بدقسمتی سے، ترکی اپنا تیل خود نہیں نکال سکتا ۔لوزان کے معاہدے میں اس کی ممانعت ہے۔ اسے دوسرے ممالک سے تیل درآمد کرنا پڑتا تھا جس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ 2023 کے بعد ترکی پر سے پابندی ختم ہو جائے گی ۔ترکی اپنا تیل خود تلاش کرے گا اور ڈرل کرے گا جس سے اس کا دوسرے ممالک پر انحصار کم ہو جائے گا۔ترکی کےپاس تیل کےکافی ذخائر ہیں اور وہ تیل برآمد کر سکتا ہے۔ تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اس کی جی ڈی پی میں اضافہ ہوگا۔
4-ترکی آبنائے باسفورس پر ٹیکس لگا سکتا ہے
آبنائے باسفورس دنیا بھر میں تجارت کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس آبنائے سے روزانہ سینکڑوں بحری جہاز گزرتے ہیں۔ لیکن لوزان معاہدے میں اسے بین الاقوامی گزرگاہ قرار دے دیا گیا تھااور ترکی کو بحری جہازوں پر ٹیکس لگانے سے روک دیا گیا تھا۔ 2023 کے بعد ترکی سمندر پار کرنے والے بحری جہازوں پر ٹیکس عائد کر سکے گا۔ آبنائے باسفورس . ترکی بحیرہ اسود اور بحیرہ مارمورا کو ملانے کے لیے ایک منصوبہ بنا رہا ہے جس کا مقصد آبنائے باسفورس میں بحری ٹریفک میں آسانی لانا ہے ۔
5-ترکی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر اپنے علاقے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
یہ بات اب بعید ازقیاس لگتی ہے لیکن ترکی چاہے تو سعودی عرب، لیبیا ، مصر ، سوڈان ، عراق، قبرص اور لیونٹ پر اپنے علاقےہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔اس دعوے کی بنیاد یہ ہوگی کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ خلافت عثمانیہ کا حصہ تھے لیکن معاہدہ لوزان کے باوجود مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی نگہبانی حاصل کرنا ترکی کے لیے ناممکنات میں سمجھاجاتا ہے ۔ مصطفی کمال نے ترکی کو سیکولر ملک بنایا تھادوسری جانب موجودہ صدر طیب ایردوان اسلام پسند رہنما سمجھے جاتے ہیں ۔ جنہوں نے آیا صوفیا کو عجائب گھر سے دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا ۔ ایردوان نے اعلان کیا ہے کہ ترکی 2023 میں اپنے ہدف تک پہنچنے پر پورے خطے کے مستقبل کی تشکیل کرے گا۔معاہدہ لوزان کے خاتمے پرترکی ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرے گا۔