قبائلیت بلوچستان کے ارتقاءمیں حائل ہے؟

 

 

 

 

اسلم اعوان

ملک میں صف اول کی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے چند نمایاں رہنماوں نے اپنے پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر(Reimagining Pakistan)ری امیجنگ پاکستان کے عنوان سے صحت مند عوامی مباحثہ کا ابتداءکرکے مایوسی کی یبوست کو کم کرنے کی جسارت کی ہے،جنہیں ہم صبح امید کے نقیبوں سے تشبہیہ دے سکتے ہیں،اجتماعی دانش کو بروکار لانے والوں میں شاہدخاقان عباسی جیسے بالغ النظر اور بہادر سیاستدان بھی شامل ہیں جن کی ذہنی دیانت،اثابت رائے،سیرچشمی اورکسرنفسی ہر شک و شبعہ سے بالاتر ہے،اگر اجتماعی حیات کے دکھوںکی درست تشخیص کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کی خاطر قوم کی مجموعی دانش کو بروکار لانے کی یہی مشق جاری رکھی گئی تو ہم بقائِ دوام کی منزل مقصود کو پا لینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں منعقد ہونے والے پہلے سیمنار میں جہاں بلوچوں کی روایتی لیڈرشپ خاصکر نواب اسلم رئیسانی اور محمد عیسیٰ روشان نے ماضی میں بلوچستان کی قبائلی قیادت کے ساتھ ہونے والی بدعہدیوں کے دل سوز تذکرے اور حال ہی میں بلوچ سماج کے ساتھ روا رکھی جانے والی ناانصافیوں کے ازالہ کے لئے جلد قابل قبول فارمولا تلاش کرنے بصورت دیگر ہولناک نتائج کے لئے تیار ہو جانے کی وعیدیں سنائیں وہاں جواں سال محقیق رفیع اللہ کاکڑ نے ہمارے فرسودہ سیاسی نظام میں پائی جانے والی خامیوں اور سماجی ناہمواریوںکی درست نشاندہی کرنے کے علاوہ بلوچستان بحران کے حل کی ایسی قابل عمل تجاویز پیش کیں،جن پہ اگر دیانتداری سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے تو کافی حد تک ہم اُن سماجی تضادات اور سیاسی تنازعات پہ قابو پا سکتے ہیں،جن کے پس پردہ محرکات میں ہماری قیادت کی نالائقیوں کے علاوہ عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں بھی شامل ہیں۔رفیع اللہ کاکڑ نے اپنی تقریر میں ممبران اسمبلی کو ملنے والے ترقیاےی فنڈ کے ضیاع اور اِس سیاسی رشوت کے مضمرات کی تفہیم کرتے ہوئے اس بدنام پریکٹس کو فوری طور پہ بند کرنے کے علاوہ بلوچستان میں بلدیاتی اداروں کو فعال بنا کر جدید خطوط پہ معاشرے کی تنظیم سازی، لوگوں کو بنیادی ضروریات کی آسان فراہمی،ترقی کے عمل کو ہموار بنانے اورنچلی سطح کی فیصلہ سازی کے نظام میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شریک کرنے کے طور طریقوں کی وضاحت کی،انہوں نے قومی وسائل کو آبادی کے تناسب سے بانٹنے کی بجائے خطہ کے جیوپولیٹکل حالات اور علاقائی ضرورتوں کے مطابق تقسیم کرنے کے لئے سینٹ آف پاکستان کے ممبران کے لئے انتخابات براہ راست کرانے کی تجویز پیش کرنے کے ساتھ کئی ممالک میں اس قسم کے کامیاب تجربات کے حوالے بھی دیئے،تاہم وہ بلوچوں کو قبائلیت کی فرسودگی سے ایک قدم آگے نکل کر معاشرتی وجود میں ڈھلنے کی کوئی قابل عمل تجویز پیش نہیں کر سکے ۔بہرحال، اس قسم کے سیمنار ہمارے ماحول پہ چھائے گھٹن کے احساس کو کم کرنے اور قومی امور میں تمام اہل الرائے افراد کی فکری صلاحیتوںکی بروکار لاکر ہمیں کنفوژن اور ذہنی انتشار کی کیفیت سے نکال کر فکری طور پر ایک مربوط قوم بنانے کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔اس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ کیمونزم کے بعد سرمایادارنہ نظام معشت کی ناکامی کے باعث پاپولر ادارہ جاتی جمہوریت بھی،ماورائے صداقت، عہد کی نسل انسانی کے مسائل کی پیچیدگیوں سے نمٹنے میں ناکام نظر آتی ہے،کرہ اراض شاید پہلی بار طاقت کی یک قطبی اور دو قطبی تقسیم کے اثر سے باہر نکل کر سراب کے مرحلہ میں داخل ہونے والا ہے،چنانچہ اس وقت پوری دنیا،نہ چاہتے ہوئے بھی،پیراڈئم شفٹ کے نازک مراحل سے گزر رہی ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اگرچہ کرہ اراض کے انسانوں کو باہم مربوط کر دیا لیکن ہمارے پنجاب،سندھ،خیبرپختون خوا اور کشمیر میں بسنے والے کروڑوں لوگ آج بھی اندرون سندھ میں غربت و افلاس اور وڈیرہ شاہی کے ظلم کی چکی میں پستی انسانیت اور سابقہ قبائلی علاقوں میں بڑھتی ہوئی مہیب دہشتگردی کے علاوہ بلوچستان کے بحران سے بے خبر اور بلوچ عوام کی حالت زار سے لاتعلق ہیں،اس لئے ری امیجنگ پاکستان جیسے سمینار کا انعقاد کسی حد تک بائیس کروڑ پاکستانیوں کے لئے اپنے ہم وطن بلوچوں اور پیش پاءافتادہ بستیوں کے حالات بارے آگاہی کا ذریعہ بن گیا۔اس آئیڈیا کے محرک اول شاہد خاقان عباسی نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا”پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں غیر فعال ہیں،قومی امور سے متعلق،کئی فیصلے ماورا آئین ہوتے ہیں،فوج اور عدلیہ اپنے آئینی دائرہ اختیار سے باہر نکل کر ملکی معاملات پہ اثرانداز ہوتے ہیں،جب مکالمہ ختم ہو جائے تو سیاست انتقام اور دشمنی میں بدل جاتی ہے“یعنی اس ملک کے اہل خرد کو ان مسائل پہ صحت مند مباحثہ شروع کرنا ہو گا۔بلاشبہ قومی مکالمہ کے آئینی فورم پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے غیرفعال ہو جانے کی وجہ سے ہمارا اجتماعی سیاسی نظام بیکار اور قانون کی حکمرانی کا تصور مفقود ہو گیا،حتی کہ ازمنہ رفتہ کا وہ قبائلی تمدن بھی متروک ہو گیا جس نے صدیوں تک گروہ انسانی کو جوڑے رکھا،قرائین بتاتے ہیں کہ فی الوقت نسلی و لسانی عصبیت کا فلسفہ سیاست بھی کشش کھو چکاہے،اس لئے زندگی کی تفہیم اور نوع انسانی کی فلاح کے لئے ایسے وسیع قومی مکالمہ کی ضرورت ہے جو ہمیں اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھ سکے۔بیشک،قبائلیت انسان کے اُس عہد طفلیت کی باقیات میں سے ہے،جب روئے زمین پہ نسل انسانی کو اپنی بقاءکی خاطر ارتکاز قوت کےلئے طاقتور قبائلی عصبیتوں کی ضرورت پڑتی تھی۔انسانوں کو نظام ہائے سلطنت کا تصور سات ہزار سال پہلے نینوا کے بادشاہ حمورابی نہیں دیا،جس نے حرمت جان کا قانون بنا کر” سر کے بدلے سر“ کاٹنے کی سزائیں مقرر کیں تو پہلی بار نوع انسانی نے ایک قدم آگے بڑھ کر اک گوناں آزادی کے احساس کو پایا،بلاشبہ ہم قانون کو اس لئے تسلیم کرتے ہیں تاکہ ہم آزاد ہو جائیں۔بدقسمتی سے انگریز کی ریاستی مقتدرہ نے خیبرپختون خوا کے فاٹا ایرز اور بلوچستان میں جمود کو برقرار رکھنے کے لئے فرسودہ قبائلیت کو ریگولیٹ کرنے کی خاطر لیویز اور ایف سی آرجیسے قوانین کے نفاذ کے ذریعے مَلکی اورسرداری نظام کے مہروں کے ذریعے ڈیڑھ سو سال تک بلوچوں اور پشتونوںکے سماجی و سیاسی ارتقاءکا روکے رکھا،مگر افسوس کہ آزادی کے بعد بھی ہم انسانوں کے لئے قبائلیت کے گنبد بے در سے نکلنے کی راہ نہ بنا سکے،چنانچہ بلوچستان میں سیاست کی سماجیات غیر واضح طور پر گہرے جمود کی نشاندہی کرتی ہے۔جب سیاست کی عمرانیات کا ذکر کرتے ہیں تو ہم لاشعوری طور پر واضح کرتے ہیں کہ تحقیق کا فریم ورک، نقطہ نظر یا فوکس طاقت کا حصول نہیں بلکہ سماجی اقدار،رسم رواج اور زندگی کے تقاضوں کی تکمیل کے عمل کو ریگولیٹ کرنے کے لئے ہمیں آئینی ریاست کا ٹول درکار ہے گویا اجتماعی نظم(ریاست) آزادی کا وسیلہ ہے خود نصب العین نہیں،اس لئے ریاست کی تقدیس کے باوجود سماجی،سیاسی اورسائنسی ارتقاءکو اختلافات کے سہارے پھلنے پھولنے کا موقعہ فراہم کرنا لازمی ہوتا ہے تاہم سوشل سائنس کو پولیٹیکل سائنس کے ساتھ گڈ مڈ کرنے کے مظاہر بہت سے شعبوں کے لیے تشویش کا باعث بنے اور یہی ابہام دنیا بھر میں ایک سنگین خرابی ثابت ہوا۔امر واقعہ یہ ہے کہ یوروپ میں بھی نشاة ثانیہ اور اصلاح کی تحریکیں سیاسی جماعتوں نے نہیں بلکہ شاعروں ادیبوں، فلسفیوں اور دانشوروں نے اٹھائیں،سیاستدان اور سیاسی جماعتوںکے منشور،ہمیشہ حصول طاقت کی چھپی ہوئی آرزوں کا معقول لباس ہوتے ہیں بلکہ آزادی کی پکار بھی اس دل سے اٹھتی ہے جو خفیہ طور پہ طاقت کا بھوکا ہو۔عصری سیاسی سماجیات بظاہر ان سوالات کو سنجیدگی سے لیتی ہے لیکن اس کا تعلق تمام معاشروں میں طاقت اور سیاست کے کھیل سے جڑا رہتا ہے،جس میں ریاست اور سماج کے درمیان تعلقات اہمیت کے حامل ہیں یعنی زندگی کے کھیل میں کچھ ایسے قوانین ہونے چاہیں جنہیں وہ بھی تسلیم کریں جو انکی خلاف وردی کی قوت رکھتے ہیں تاہم ہمارے مسائل پاور پالیٹیکس اور سماجی حرکیات کے محور تک محدود نہیں بلکہ جزوی طور پر، یہ سماجی تعلقات کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں،سماجی تحریکوں کی تنظیم کے اثرات اور عالمگیریت کے نتیجے میں ریاست کے نسبتاً کمزور ہونے کی پیداوار ہیں،اس وقت ہماری آزادی قانون نہیں چھین رہا بلکہ ہمارے اذہان کا بے ضرر تساہل اس کا ذمہ دار ہے،بیشک اخلاق کا نصب العین امن ہے لیکن بقاءکی آزمائش جنگ ہے،ہمیں اپنے زمانے کے تقاضوں کا ادارک ضرور ہونا چاہئے،زمانہ کے بطن میں پنہاں اسرار کو بے حجاب کرنے اور زندگی کے دھارے کو ہموار رکھنے کے لئے خاموش مزاحمت(Passive resistance ) ناگزیر ہوتی ہے اور یہی ری امیجنگ پاکستان کے فلسفہ کی روح ہونی چاہئے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More