انقرہ (پاک ترک نیوز)
ترکیہ کےپارلیمانی انتخابات کے دو ہفتے بعد 600 قانون سازوں نے ترک گرینڈ نیشنل اسمبلی (ٹی بی ایم ایم) کے لیے منتخب یا دوبارہ منتخب ہونے کا حلف اٹھالیا ہے۔ سب سے معمر قانون ساز کے طور پر، 75 سالہ نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کے رہنما دیولت باہیلی نے عبوری پارلیمنٹ کے اسپیکر کے طور پر حلف برداری کی تقریب کی صدارت کی۔
جمعہ کے روز ہونے والی حلف برداری کی تقریب میںملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار 121خواتین اراکین اسمبلی نے بھی حلف اٹھایا۔جن میں حکمران جماعت اے کے پارٹی کی 50اراکین بھی شامل ہیں۔جبکہ حلف اٹھانے والوں میں دو سو کے قریب نوجوان ارکان بھی شامل ہیں۔جو گرینڈ نیشنل اسمبلی میں نوجوان اراکین کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
نئی پارلیمنٹ کےحلف اٹھانے کے ساتھ حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پارٹی) اپنی تازہ کامیابی کے ساتھ اقتدار میں اپنی تیسری دہائی میں داخل ہو گئی ہے۔14مئی کے الیکشن میں اے کے پارٹی نے 268 نشستیں حاصل کیں جو کہ پارلیمان میں سب سے زیادہ ہیں۔اے کے پارٹی کے علاوہ، اس کے پیپلز الائنس پارٹنرز یم ایچ پی نے 50 سیٹیں جیتیں اور نیو ویلفیئر پارٹی (وائی آر پی) نے پانچ سیٹیںحاصل کیں۔ جس کے نتیجے میں انہیں پارلیمنٹ میں کل 600 میں سے 323 سیٹوں کی مشترکہ اکثریت حاصل ہے۔
اپوزیشن میں169 اراکین کے ساتھ ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے نیشنز الائنس میں اپنی اتحادی گڈ پارٹی (آئی پی) کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ میں کل 212 نشستیں حاصل کیں۔سی ایچ پی کی زیر قیادت چھ جماعتی اپوزیشن اتحاد کے چھوٹے شراکت دار جو سی ایچ پی کی فہرستوں کے تحت پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے کر تقریباً 40 قانون سازوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ان کے اراکین ایوان میں اپنی پارٹیوں کی نمائندگی کریں گے ۔یوں حقیقت میں مرکزی اپوزیشن جماعت سی ایچ پی کے قانون سازوں کی تعداد 2018 کے 169 اراکین سے کم ہو کر اس مرتبہ 129 ہو جائے گی۔
یہ امر انتہائی اہم ہے کہ اپوزیشن کی مرکزی جماعت سی ایچ پی کے سربراہ کمال کلچدار اولو سمیت نیشنز الائنس میں شامل گڈ پارٹی کی سربراہ میرل اکسینر ، دیوا پارٹی کے چیئر مین علی باباکان، جی پی کے چیئرمین احمد داؤو اولو، ایس پی کے چیئرمین کرم اللہ اولو اورڈی پی کے چیئر مین گلتکین اوسا ل نئی پارلیمنٹ میں بطور اراکین موجود نہیں ہونگے۔
ترک پارلیمنٹ کی حلف برداری کے موقع پر نو منتخب رجب طیب اردوان ،پیپلز الائنس میں شامل جماعتوں کے سربراہان بھی موجود تھے ۔