انقرہ (پاک ترک نیوز)
ترکیہ فلسطینی کاز سے منہ نہیں موڑ سکتا جسے اس کے بانی مصطفی کمال اتاترک سمیت اس کے آباؤ اجداد نے ترجیح دی تھی۔خطے کو درپیش خطرات کے پیش نظرفلسطین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے ترکیہ پر عزم ہے۔
ان خیالات کا اظہار صدر رجب طیب اردوان نےیہاںترک ملٹری اکیڈمی کی گریجویشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا جو 30 اگست یوم فتح کی 102 ویں سالگرہ کے موقع پرمنعقد ہوئی تھی۔ اردوان نے فلسطینی کاز کے لیے ترکیہ کی حمایت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ جو کوئی کہتا ہے کہ ہمیں یروشلم کی پرواہ نہیں ہے وہ اس قوم کی تاریخ کے بارے میں نہیں جانتا۔ ہم یروشلم سے کیسے منہ موڑ سکتے ہیں؟ استنبول اور یروشلم کو کون الگ کر سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ عثمانیوں نے چار صدیوں تک یروشلم پر امن و امان اور فلاح و بہبود کے ساتھ حکومت کی ہے۔صدر نے پہلی جنگ عظیم کے فلسطینی شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جو ترک فوج کے شانہ بشانہ لڑے تھے۔صدر نے نوٹ کیا کہ مصطفیٰ کمال اتاترک نے بھی مقدس شہر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فلسطین کو دشمنوں سے بچانے کے لیے جدوجہد کی تھی۔
ترکی نے غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ جسےساری دنیا فلسطینیوںکی نسل کشی قرار دے رہی ہے۔ اس نے بہت سے مغربی اتحادیوں کو اسرائیل کی حمایت پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے اور بار بار مسلمانوں کے اتحاد پر زور دیا ہے تاکہ جنگ بندی یقینی بنائی جا سکے۔اسکے علاوہ ترکیہ نے بھی باضابطہ طور پر جنوبی افریقہ کے اس اقدام میں شامل ہونے کے لیے درخواست دی ہے جس میں اسرائیلپر بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) میں نسل کشی کا مقدمہ چلایا تھا۔