ڈاکٹر فیصل کمال حیدری
سال کا آخری مہینہ ایک اور ملک کو دیوالیہ کر گیا۔
معیشت کے حال سے ہم سب ہمہ وقت بے حال رہتے ہیں۔ موجودہ عالمی معاشی بحران پس ماندہ ہی نہیں ترقی یافتہ معیشتوں کے لیے بھی خطرات کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ آخر ایسا کیا ہو گیا ہے کہ ایک کے بعد ایک ملک دیوالیہ ہوتا جا رہا ہے۔ جبکہ دنیا کے اکثر ممالک اس وقت معاشی بحران سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
2022 جاتے جاتے افریقی ملک گھانا کو دیوالیہ کر گیا۔ کیا آنے والا برس مزید درجنوں معیشتوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا؟ دنیا کو کون سے خطرات لاحق ہیں؟ کیوں پوری دنیا کساد بازاری کا شکار ہونے کو ہے؟ اور کیا واقعی آنے والا برس بہت سے ممالک کے دیوالیہ ہونے کا پیامبر ہو سکتا ہے؟
2019-20 میں کووڈ 19 نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لیا تو تمام معاشی اشاریئے چکرا کر رہ گئے۔ تمام تخمینے اور اندازے اس لیے ڈھیر ہو گئے کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں ملکوں کے ملک اُس حیران کن لاک ڈاؤن کا شکار ہو جائیں گے جس کے متعلق کسی نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا۔
اس غیر معمولی صورتِ حال نے غیر معمولی اقدامات کو ترغیب دی اور ماہرینِ معاشیات نے بہت سے وہ فیصلے لیے جن کے اثرات آنے والے دنوں میں عالمی معیشت کا ناک نقشہ بھی بدل کر رکھ سکتے ہیں۔
اس پس منظر اور دنیا کو در پیش صورتِ حال کے تناظر میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) نے متنبہ کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں چار عوامل عالمی شرحِ نمو (International Growth Rate) کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔
ان عوامل کے اثرات 2023 میں عالمی معاشی ترقی کی رفتار کو 2 فی صد تک محدود کر سکتے ہیں جو گذشتہ پانچ دہائیوں میں سست ترین شرحِ ترقی ہو گی۔
1. یوکرین کی جنگ
یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں روس سے یورپ کو گیس کی سپلائی میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ 2021 کے مقابلے میں روس یورپ کو اب صرف چالیس فی صد گیس فراہم کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ گیس کی سپلائی مزید کم ہوگی۔ اگر ایسا ہوا اور ماسکو نے یورپ کے لیے گیس کی بر آمد بالکل روک دی تو یورپی شرحِ نمو بری طرح متاثر ہو گی۔
2. افراط زر
یوکرین کے بحران کی وجہ سے ایک بار پھر خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ حکومتیں طلب پر قابو پانے کے لیے قرض کے لیے شرحِ سود میں اضافہ کر رہیں ہیں لیکن خطرہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں معیشتیں جمود کا شکار ہو جائیں گی۔ کیونکہ قرضوں کی ادائگیوں کا بڑھتا ہوا حجم پیداواری لاگت میں اضافہ کرے گا اور محدود آمدنی والے لوگوں کی قوتِ خرید محدود کر دے گا۔ یوں شدید افراطِ زر ملکوں کی شرحِ نمو سست کر دے گی۔
3. کساد بازاری
آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، "2023 میں کساد بازاری کا خطرہ خاص طور پر نمایاں ہے۔” امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین سمیت کئی ملکوں کے مرکزی بینکوں نے حال ہی میں طلب کو کم کرنے کی کوشش میں شرح سود میں اضافہ کیا ہے۔ تاہم قرضہ جات، شرحِ سود اور افراطِ زر کا بگڑتا توازن متنبہ کر رہا ہے کہ ہم اس خوف ناک صورتِ حال کی طرف بڑھ رہے ہیں کہ بازاروں میں خریدار ہی نہ رہیں۔
4. قرض کی ادائیگی
آئی ایم ایف کا تخمینہ ہے کہ کم آمدنی والے 60 فیصد ممالک ادائیگیوں کے عدم توازن کا شکار ہیں۔ اس کا اہم ترین سبب شرحِ سود میں اضافہ، خوراک اور ایندھن کی بلند تر عالمی قیمتیں اور ان ممالک کے سکڑتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر ہیں۔ خطرہ ہے کہ انتہائی پس ماندہ معیشتیں ادائیگیوں کے عدم توازن کے نتیجے میں دیوالیہ بھی ہو سکتی ہیں۔ گھانا اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
مغربی افریقہ کے ملک گھانا نے دسمبر 2022 میں اپنے بیشتر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کو معطل کر دیا۔ اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے گھانا کے وزیرِ خزانہ نے کہا کہ ملکی خزانہ موجودہ شرائط پر اب بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہے۔
گھانا کی وزارت خزانہ نے اس فیصلے کو ‘عبوری ہنگامی اقدام’ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے یورو بانڈز، تجارتی قرضوں اور زیادہ تر دو طرفہ قرضوں سمیت دیگر قرضوں کی ادائیگی نہیں کر پائے گا۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ ‘حکومت گھانا قرضوں کی ادائیگی کو مستحکم کرنے کے لیے اپنے تمام بیرونی قرض دہندگان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔’
یاد رہے کہ گھانا کوکو اور سونے کے بڑے پروڈیوسرز میں سے ایک ہے۔ گھانا کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر بھی ہیں۔ لیکن ادائیگیوں کا توازن اس قدر بگڑ گیا ہے کہ اب گھانا کے لیے مزید بیرونی ادائیگیاں ممکن نہیں رہیں۔
حکومت کو اس وقت آمدنی کا 70 سے 100 فیصد تک اپنے قرض کی ادائیگی میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے تاہم ملکی ضروریات ادائگیوں کا یہ بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہے۔
یاد رہے کہ گھانا کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 6.6 ارب ڈالرز ہیں اور یہاں کی فی کس آمدنی تقریباً 2400 ڈالر ہے۔
مئی میں جب سری لنکا دیوالیہ ہوا تو اس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر1.6 ارب ڈالر تھے اور وہاں ایک فرد کی اوسط آمدنی 3830 امریکی ڈالرز تھی۔
پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 1.6 ڈالرز تک آن گرے ہیں اور قطع نظر اس حقیقت سے کہ ان میں سے ایک ڈالر بھی ہمارا اپنا نہیں ہے، یہاں فی کس آمدنی 1658 امریکی ڈالر ہے۔ ایسے میں پاکستان کا مستقبل کیا ہو گااس کا جواب آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔