رفح کراسنگ کھولنے کے لئے امریکی،اسرائیلی اور مصری حکام کا اجلاس

قاہرہ (پاک ترک نیوز)
مصر، اسرائیل اور امریکہ کے حکام نے قاہرہ میں ایک اجلاس میں شرکت کی ہے جس میں غزہ کے ساتھ رفح بارڈر کراسنگ کی بندش کے ایک ماہ بعد دوبارہ کھولنے پر بات چیت کی گئی۔
اس بات کا دعویٰ ایک اعلیٰ سطحی ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے مصر کے سرکاری میڈیا نے کیا ہے۔ البتہ رپورٹ شدہ میٹنگ میں نمائندگی کی سطح واضح نہیں کی گئی۔رپورٹ کے مطابق مصر نے کراسنگ کے فلسطینی حصے سے اسرائیل کے مکمل انخلاء پر اصرارکیا ہے۔مصر نے تمام فریقوں کو رفح کراسنگ کے نہ کھولے جانے پر اپنے مستقل موقف کی وضاحت کی کہ جب تک اسرائیل کراسنگ کے فلسطینی حصے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے گامعاملات آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔جبکہ اسرائیل کی طرف سے خوراک، صاف پانی اور ادویات کی شدید ناکہ بندی کے نتیجے میں غزہ کے وسیع علاقے کھنڈرات میں تبدیل ہو چکےہیں۔
قبل ازیں7 مئی کو اسرائیل نے مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کے غزہ کی جانب آپریشن کا کنٹرول حاصل کر لیا اوربہت زیادہ آبادی والی ساحلی پٹی میں اہم سہولت کے ذریعے امداد کی ترسیل روک دی۔ کراسنگ کی بندش کے بعد سےمصر نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کے انخلاء تک رفح کے راستے امدادی نقل و حمل کو مربوط نہیں کرے گا۔قاہرہ کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ جنوبی غزہ کے شہر رفح میں اسرائیلی جارحیت میں توسیع لڑائی سے فرار ہونے والے پناہ گزینوں کی مصر کے جزیرہ نما سینائی میں بڑے پیمانے پر ہجرت کا باعث بن سکتی ہے۔
مصر پہلا عرب ملک تھا جس نے 1979 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ لیکن غزہ میں جاری فوجی مہم نے عرب دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں اسرائیل مخالف جذبات کو ہوا دی ہے جس سے ان کے کئی دہائیوں پرانے تعلقات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے گذشتہ جمعہ کے روز کہا تھاکہ اسرائیل نے فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کو تین مرحلوں پر مشتمل ایک معاہدہ پیش کیا ہے جس کے تحت محصور غزہ کی پٹی میں دشمنی ختم ہو جائے گی اور ساحلی علاقوں میں قید یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جائے گا۔بائیڈن نے حماس سے اس معاہدے کو قبول کرنے کی اپیل کی اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پر زور دیا کہ وہ اس منصوبے کی مخالفت کرنے والے اپنے حکومتی اتحاد کے ارکان کے دباؤ کو روکیں۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More