(تحریر میاں افتخاررامے)
بدھ کے روز میری آفس سے چھٹی تھی کیونکے میری بھابی چند ماہ سے برین ٹیومر کے خطرناک مرض کا شکار ہیں تو چیک اپ کے لیے میں نے سرجی میڈ اسپتال کے نامور پروفیسر منظور صاحب سے بدھ کا ہی ٹائم لیا ہوا تھا ۔ پروفیسر صاحب کا اسپتال ظفر علی خان روڈ پر واقع ہے شام کے وقت ہم گھر سے اسپتال کے لیے نکلے تو مال روڈ پر ٹریفک کا رش معمول سے زیادہ تھا ، بہت دیر ہم ٹریفک میں پھنسے رہے ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق مجھے علم تھا کے تحریک انصاف کی ریلی کی وجہ سے جگہ جگہ راستے بلاک ہیں اس لیے میں نے بھائی کو کہا کے دیڑھ گھنٹے پہلے نکلتے ہیں کیونکے آج ٹریفک کا بے بہا رش ہوگا۔ مال روڈ سے ہم نے کینال روڈ پر ٹرن لیا تو بمپر ٹو بمپرٹریفک جام تھا۔ روڈ کو ایک طرف سے بند کیا گیا تھا جبکہ دوسری سائیڈ کھلی تھی ۔ تھوڑا سا اگے گئے تو پولیس کی جانب سے تحریک انصاف کے کارکنان پر شدید قسم کی شیلگ کی جاری تھی ۔شیلنگ انتی شدید تھی کے گاڑی میں بھی سانس لینا دشوار ہورہا تھا ۔ شدید شیلنگ کے بعد بھی پولیس کا غصہ کم نا ہوا تو انہوں نے کارکنوں پر لاٹھی چارج شروع کردیا۔ ایسا لگ رہا تھا کے پولیس انہیں سیاسی جماعت کے کارکن نہیں بلکے دہشت گرد سمجھ کر پھنٹا لگا رہی ہے ۔ بہت دیر تک ہم تمام مناظر لائیو دیکھتے رہے۔ ٹریفک کا دباو کچھ کم ہوا تو ہم وہاں سے نکل کر کلینک چلے گے ۔ چیک اپ کے بعد ہم نے راستہ بدل کرگھر جانے میں ہی آفیت سمجھی۔ گھر پہنچ کر میں نے ٹی وی لگایا تو خبر آرہی تھی کے تحریک انصاف کا ایک کارکن شہید ہوگیا ہے۔ اس شہید کارکن کا نام علی بلال المعروف ضلِ شاہ ہے۔
پاکستان کے نامور صحافی اور جیو نیوز کے سنئیر اینکر پرسن حامد نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر علی بلال کی ایک ویڈٰیو شئیر کی ہے جس میں ایک شخص علی بلال المعروف ضلِ شاہ سے اس کا نام لے کر بات چیت کررہا ہے ۔اس ویڈیو کے مطابق علی بلال قیدیوں والی وین میں بند ہے اور وین مال روڈ پر کھڑی ہے۔ لیکن مختلف میڈیا رپورٹس میں یہ ہی بتایا گیا کہ علی بلال کو زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تو وہ دم توڑ گیا ۔ دوسری طرف اسپتال سے جاری کی گئی رپورٹ میں واضع طور پر لکھا ہوا ہے کہ علی بلال کو مردہ حالت میں اسپتال لایا گیا ۔ یہاں پر سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے اسپتال لانے والے کون ہیں کچھ چینلز اسپتال کے کیمروں میں محفوظ ہونے والے وہ چہرے ٹی وی پر دیکھا رہے ہیں جو علی بلال کو اسپتال لائے۔ لیکن تاحال ان کے نام اور شناخت سامنے نہیں آسکی۔ یہاں پر دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومت نے قتل کی تحقیقات کی بجائے فورا سے پہلے پولیس کی مدعیت میں عمران خان کے خلاف ہی تھانہ رائیونڈ میں مقدمہ درج کروادیا۔ لیکن پی ٹی آئی کے کارکن علی بلال کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تشدد کی تصدیق ہوگئی ہے ، علی بلال کی موت دماغ میں گہری ضرب آنے کے بعد خون زیادہ بہنےسے ہوئی مقتول علی بلال کے جگر اور لبلبہ میں خون جمع ہونا بھی موت کی وجہ بنا، دماغ میں خون جمع ہونے سے علی بلال کا بلڈ پریشر انتہائی کم ہوگیاتھا۔علی بلال کوجسم کے حساس اعضاء پر بھی تشدد کیاگیا،علی بلال کی کھوپڑی کا ایک حصہ بری طرح سے متاثر ہواتھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آنے کے بعد بہت سے سوال عام آدمی سمیت پوری قوم کے ذہن میں جنم لے رہے ہیں کہ علی بلال عرف ضلِ شاہ کو گرفتار کر کے قیدی وین میں بھی بیٹھے دیکھا گیا ہے تو پھر قتل کیسے ھوا کس نے کیا ؟ کیا قاتل مل جاٸیں گے ؟ اور اگر مل گے تو نشانِ عبرت بنیں گے ؟ ایسے سوالات ہر دماغ میں اٹھ رہے ہیں اور جواب بھی اپنے اندر سے ہی آتا ھے !! کہ نہیں نہیں کچھ بھی نہیں ھو گا ، قاتل چونکہ بڑے تگڑے لوگ ہیں ، ماضی میں ایسے سیکڑوں نہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں بے گناہ لوگ قتل ھوتے رہے ، ڈرٹی ہیٸری طرز کے کرداروں کی بھینٹ چڑھتے رہے ، ریاستی وردی میں چُھپے بھیڑیوں کا شکار ھوتے رہے، شک ھے تو 75 سالہ تاریخ کا مطالعہ کر لو یقیناً اطمینان پاٶ گے ، پھر ضلِ شاہ کو دفناٶ گے ، دو چار دن افسوس کرو گے ، احتجاج کرو گے ، پھر مقتول کو بھول بھال کر اپنی اپنی بھاری کا انتظار کرو گے !! چونکہ ہجوم کے ساتھ اکثر ایسے ہی ھوتا ھے۔۔۔۔۔۔