نوروز کا تہوار کیا ہے ؟ کہاں کہاں منایاجاتا ہے؟

عید مسلمان مناتے ہیں ، کرسمس عیسائی اور پاسوور یہودی مناتے ہیں لیکن "نوروز” ایسا تہوار ہے جیسے کئی مذاہب کے پیروکار مختلف ممالک میں تین ہزار سال سے مناتے چلے آرہے ہیں ۔اسے موسم بہار اور فارسی کیلنڈر میں نئے شمسی سال کے پہلے دن کا تہوار بھی کہا جاتا ہے جو عیسوی سال کے اعتبارسے 21 مارچ بنتا ہے ۔ فارسی زبان کے لفظ "نوروز” کا مطلب "نیادن "ہے ۔ روایت ہے کہ "نوروز”کا آغاز دنیا کے قدیم پارسی مذہب میں ہوالیکن اب شیعہ مسلک میں بھی اسے معتبر سمجھا جاتا ہے ۔موسم بہار کی آمد کا یہ اعلان کرتا یہ تہوار اب زیادہ تر مغربی چین سے ترکی تک منایا جاتاہے ، پاکستان اور ہندوستان کے مختلف حصوں میں بھی اسے منانے والے موجود ہیں ۔ "نوروز”کے دوران بزکشی سمیت کئی دلچسپ کھیل ، کھانے اورمہینہ بھر عبادات کی جاتی ہیں ۔

موسم بہار کے تہوار کا آغاز کب ہوا ؟
"نوروز”قدیم ایرانیوں کی عید ہے جو بہار کی آمد پر منائی جاتی ہے ۔ قدیم فارس میں زرتشت مذہب (پارسی )کے ماننے والے اسے زندگی کی تخلیق کے جشن کے طور پر مناتے تھے اور دیوتا اہورامزدا کو بھینٹ چڑھائی جاتی تھی ۔ اسے برف کے پگھلنے ، سبزے کے نکلنے ، موسم سرما کے اختتام اور زندگی کے دوبارہ سے آغاز کا تہوار کہا جاتاہے ۔ پارسی مذہب میں آگ کو مقدس سمجھاجاتاہے ۔ اس لیے بدقسمتی سے پیچھا چھڑانے کے لیے آگ کے الاؤ سے کود کر گزرا جاتا ہے ۔ وسطی ایشیا کے سرد ممالک میں طویل برفباری اور سر دموسم کے بعد موسم بہار کی شروعات حقیقت میں نئی زندگی پانے کا نام ہی ہے ۔ اس لیے آج زرتشت یا پارسی مذہب کے ماننے والے انتہائی کم لوگ رہ گئے لیکن "نوروز” کا تہوارہر آنے والے مذہب میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے ۔

نوروز” سے جڑی قدیم روایات کون سی ہیں ؟”
وقت کے ساتھ ساتھ "نوروز” موسم بہار کی آمد کا تہوار سے زیادہ مذہبی رنگ میں ڈھلتا چلا گیا ۔ اس کے بارے بہت سی روایات جڑتی چلی گئی ۔زرتشت کے دور میں نوروز چار قدرتی عناصر پانی ، مٹی ، آگ اور ہوا کا مظہر اور علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس عقیدے اور حکومتی دلچسپی نے نوروز کو بہت رنگا رنگ اور پُر وقار بنا دیا۔
قدیم زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے ( یہ دعویٰ اب غلط ثابت ہوچکا ہے ) اور جب وہ سال کا چکر مکمل کرتا ہے تو "نوروز”وہ مقام یا وقت ہے جب سورج برج دلو کو چھوڑ کر برج حمل میں داخل ہوتا ہے ۔ اس عمل کومقام اعتدال کہا جاتا ہے یعنی سخت سرد موسم چلا گیا اب موسم گرما آنے سے پہلے اعتدال کے موسم بہار کا آغاز ہوا چاہتا ہے ۔

نوروز” کہاں کہاں منایا جاتا ہے ؟”
"نوروز” کو ایرانی تہوار کہا جاتا ہے ۔ دراصل یہ فارسی زبان بولنے والے ممالک میں زیادہ منایا جاتا ہے ۔ترکی ، افغانستان ، تاجکستان ، آذربائیجان ،ازبکستان ،شمالی عراق ، مغربی چین ، پاکستان میں گلگت بلتستان سمیت ہندوستان کے مختلف حصوں میں جوش وخروش سے مناتے ہیں ۔ ایران ، آذربائیجان ، افغانستان سمیت مختلف ممالک میں اسے سرکاری سطح پر قومی تہوار کے طور پر بھی منایا جاتا رہا ۔ سوویت یونین میں مذہبی اور ثقافتی تہوار منانے پر پابندی کی زد میں "نوروز” بھی آیا لیکن لوگ اسے منانے سے باز نہ آئے ۔ کئی بار اسے غیر اسلامی تہوار قرار دیتے ہوئے پابندیاں لگانے کی کوشش کی گئیں لیکن کوئی پابندی کام نہ آئی ۔

نوروز” سے کیا کیا جاتا ہے ؟”
"نوروز” کا آغاز لوگ اپنے گھروں کی صفائی ستھرائی سے کرتے ہیں ۔ نیا لباس زیب تن کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو موسم بہار کی آمد کی مبارک باد دیتے ہیں ۔ کھیلوں کے مختلف مقابلے ہوتے ہیں ۔ افغانستان سمیت وسطی ایشیا کے ممالک میں بزکشی کھیلنے کا اہتمام کیا جاتاہے ۔ بزکشی میں گھڑسوار کی ٹیموں کے درمیان ایک بھیڑ ذبح کرکے رکھی جاتی ہے جسے ایک دوسرے سے چھینتے ہوئے مخصوص جگہ پر جو لے جائے وہ ٹیم جیت جاتی ہے ۔ آج کے دور میں اس کی ایک جدید شکل پولو کہی جاسکتی ہے ۔
اسی دن کے حوالے سے فال گوش ایک اور قدیم روایت ہے جو نوجوان لڑکیاں اپنے ہونے والے شوہروں کے بارے میں جاننے کے لئے اختیار کرتی ہیں۔فال گوش کے لئے ایسی لڑکیاں ایک اندھیرے کونے میں چھپ کر راستے پر آتے جاتے لوگوں کی گفتگو سنتی ہیں اور اس گفتگو کی صحیح تفسیر سے وہ اپنے مستقبل کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتی ہیں ۔

آگ سے پھلانگنے کی رسم کیوں کی جاتی ہے ؟
پارسی مذہب میں آگ کو مقدس سمجھا جاتاتھا کہ یہ گناہوں اور بری طاقتوں کو جلا دیتی ہے ۔ شدید سرد علاقوں میں آگ کی اہمیت سے آج بھی انکار نہیں کیا جاتا ۔اس لیے نوروز کاایک دلچسپ رواج آگ سے کودنا بھی ہے ۔ لوگ آگ جلا کر اس پر سات مرتبہ پھیلانگتے ہیں تاکہ بری طاقتوں سے چھٹکارا پایا جاسکے ۔ کئی جگہوں پر سات جگہ آگ جلا کر اس پر سے ایک ہی بار پھلانگا جاتا ہے ۔ یہ قدیم رواج اب نئی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ اب زیادہ ترخاندان صرف موم بتیاں جلاتے ہیں یا چھوٹا کا الاؤ جلاتے ہیں ۔

آذربائیجان میں نوروز کو نئی زندگی کیسے ملی ؟
سوویت یونین سے آزادی ملنے کے بعد آذربائیجان کے بانی صدر حیدرعلی یوف نے نوروز پر قومی تعطیل کا اعلان کیا۔ وہ اپنی زندگی میں نوروز کی تمام تقریبات میں شرکت کرتے تھے ۔ یہی وجہ سے آذربائیجان میں نوروز کی قدیم اور جدید روایتیں زیادہ مضبوط نظر آتی ہیں ۔ آذربائیجان میں جشنِ نوروز کے سلسلے میں لوگ گھروں، چھتوں، گلیوں اور مکانوں کے شیڈز پر چھوٹی چھوٹی آگ جلاتے ہیں۔ قدیم دور میں چھوٹے بچے سے آگ لگوائی جاتی تھی ۔ایسی آگ کو صحیح اور پاک سمجھا جاتا تھا ۔
زرتشت دور میں سمجھا جاتا تھا کہ بدھ کو نوروز کا آغاز ہوتا ہے جس کا جشن مہینہ بھر جاری رہتا ہے ۔ ہر بدھ یا چہار شنبہ فطرت کے چار عناصر سے منسوب ہیں۔ ان کے نام مختلف جگہوں پر مختلف ہیں۔ چار چہار شنبوں میں سے پہلا ہوا کے لئے مخصوص ہے، دوسرا پانی ، تیسرا زمین اور چوتھا درختوں اور پودوں کے احیاء کے لئے مخصوص ہے۔ ان چار مخصوص چہار شنبوں میں سے آخری یعنی ہوا کا چہار شنبہ سب سے اہم ہے کیونکہ اس دن سب سے اہم تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور یہ تقریبات انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوتی ہیں۔ یہ رسومات انسان کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتی ہیں۔ ان کا مقصد گزشتہ سال کے مصائب اور تکالیف سے چھٹکارا پانا اور نئے سال کے ایسے مسائل سے بچنا ہوتا ہے۔

زرتشت مذہب کا عقائد کیا تھے ؟
"نوروز” کے جشن مناتے ہوئے اس کی آغاز کرنے والے زرتشت کے بارے میں کچھ جان لیا جائے ۔ زرتشت کو پیغمبر کہا جاتا ہے ۔ جنہوں نے آریائی مذہب کے بت پرستوں میں توحید کی تبلیغ کی ۔ انہیں ایک خدا "ہورا مزدا "کی عبادت کرنے کو کہا ۔ جنت اور جہنم کے تصورات دیے ۔ قیامت کے یوم حساب سے خبردار کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ توحید کا یہ مذہب بھی مختلف رسوم ورواج کی شکل اختیار کرتا گیا اور عبادت گاہوں کے باہر زرتشت کے تصویر اور بت لازمی حصہ بن گئے ۔

شیعہ مسلک میں "نوروز” کیسے اہم ہوا ؟
فارس کا تہوار مسلمانوں کے شیعہ مسلک میں بھی اہمیت رکھتا ہے ۔ اہل تشیع کے ہاں روایت ہے کہ اسی نوروز کے دن بارہویں امام حضرت مہدی دنیا میں ظہور فرمائیں گے اور نوروز ہی کا دن ہے جب پہلی بار دنیا میں سورج طلوع ہوا،درختوں پر شگوفے پھوٹے،حضرت نوح کی کشتی کوہ جودی ہر اتری اور طوفان نوح ختم ہوا۔نبی آخرالزمان پر نزول وحی کا آغاز ہوا،حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑا اور مقام غدیر خم پر ولایت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کا اعلان ہوا۔

"نوروز” کے جشن میں "سوفرے ہفت سین "کیا ہے ؟
فارسی زبان کےالفاظ "سوفرے ہفت سین ” سے مراد سات کھانوں والی میز ہے ۔نذرانے کے طور پر میز پرسات برتنوں میں سات ایسے کھانے رکھے جاتے ہیں جن کےنام "س "سے شروع ہوتے ہیں ۔ اشیاء زندگی میں سچ، انصاف، مثبت سوچ، اچھے عمل، خوش قسمتی، خوشحالی، سخاوت اور بقاء کی علامت کے طور پر شامل کی جاتی تھیں۔سات کھانوں والی میز عام طور پر ہاتھ سے بنے کپڑے سے ڈھانپی جاتی ہے ۔ جسے "ترماہ ” کہا جاتاہے ۔ اس کے اوپر دعاؤں کی کتاب رکھی ہوتی ہے جسے ’کلام اللہ‘ کہتے ہیں اور اس کے علاوہ زندگی کے عکس کی علامت کے طور پہ ایک آئینہ بھی رکھا جاتا ہے۔
ان چیزوں کے ساتھ ساتھ موم بتیاں، کنبہ کے ہر فرد کے نام کا ایک رنگا ہوا انڈا، آنے والے سال میں خوشحالی کی علامت کے طور پر روایتی مٹھائیاں اور روٹی بھی سجائی جاتی ہیں۔نوروز کے وقت سے کچھ پہلے پورا کنبہ اس میز کے گرد بیٹھتا ہے اور گھر کا بڑا دعاؤں کی کتاب سے نئے سال کی دعا پڑھتا ہے۔
اس دوران وہ کتاب کے مختلف صفحوں کے درمیان کچھ رقم بھی رکھتا جاتا ہے جو بعد میں خاندان کے افراد میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ یہ شکرانے کا ایک انداز ہے۔ پھر ایک روایتی کھانا پیش ہوتا ہے جو مچھلی، چاول، ہرا دھنیا، خراسانی اجوائن اور پیاز پر مشتمل ہوتا ہے۔
میز پر ایک اور اہم چیز سنہری مچھلی کا پیالہ ہے۔ قدیم فارس میں یہ عقیدہ بھی رائج تھا کہ نئے سال سے کچھ پہلے یہ مچھلی ساکت ہوجاتی ہے اور نیا سال شروع ہوتے ہی اس میں دوبارہ جان آجاتی ہے۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ "نوروز” موسم بہار کی آمد کا اعلان ہے ۔ یہ نئے سرے سے زندگی کی شروعات کا جشن ہے ۔ اسے سرکاری طور پر منایا جائے یا نہیں ۔ اس سے خوشی کے اس تہوار منانے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ وہ اسی مذہبی سے زیادہ ثقافتی اور فطرت کے تہوار کے طور پرمناتے ہیں ۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More