آصف سلیمی
ایران نے ایران نے اپنے سینئر فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کے ملوث ہونے کے الزام میں 60 امریکی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کر دیا۔ ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی تین سال قبل 3 جنوری 2020 کو عراق میں امریکی حملہ میں مار دیے گئے تھے۔
ایران میں رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد اگر کسی شخصیت کو طاقتور سمجھا جاتا تھا تو وہ جنرل قاسم سلیمانی تھے۔ پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ کے طور پر سلیمانی مشرقِ وسطیٰ میں اپنے ملک کی سرگرمیوں اور عزائم کے منصوبہ ساز تھے۔ انھیں شام میں باغیوں کے خلاف جنگ، عراق میں ایران نواز شیعہ ملیشیاؤں کے عروج، داعش کے خلاف جنگ کا معمار بھی سمجھا جاتا تھا۔
قاسم سلیمانی ایرانی پسداران انقلاب کی قدس فورس کے سپہ سالار اعلیٰ تھے۔ ایران عراق جنگ کے دوران میں انہوں نے لشکر 41 ثار اللہ کرمان کی قیادت کی ۔ وہ 24 جنوری 2011 کو میجر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ رہبر اعلیٰ سید علی خامنہ ای نے خدمات کے اعتراف میں انہیں شہید زندہ کا خطاب دیا اور بعد از مرگ انہیں لیفٹینٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔
سلیمانی نے لبنان میں حزب اللہ کی عسکری قوت و تربیت، جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی، جنگ افغانستان، صدام حسین کے بعد عراق میں سیاسی اور سفارتی فضا کی تشکیل نو، شام کی خانہ جنگی اور عراق میں داعش سے مقابلے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ عموماً شہرت کی چکاچوند سے دور رہنے والی شخصیت سمجھے جاتے تھے تاہم داعش سے نبرد آزمائی کے دوران حکومت ایران نے متعدد بار ان کی عسکری کامیابیوں کی تصاویر کو شائع کیا جس سے ان کی شناخت عوام تک پہنچی۔ یہیں سے ان کی ہردلعزیزی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ وہ شخص جنھیں چند سال پہلے تک بہت سے ایرانی شہری راہ چلتے پہچان نہیں سکتے تھے، دستاویزی فلموں، ویڈیو گیمز، خبروں اور پاپ گیتوں کا موضوع بن گئے۔ میڈیا میں وہ عموماً Shadow commander کے لقب سے مشہور تھے۔ سلیمانی واشنگٹن کی نظر میں ایسی شخصیت تھے جن کے ہاتھ امریکی افواج کے خون سے رنگین تھے۔ جبکہ ایران میں ان کی مقبولیت کی وجہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں اور دباؤ کے امریکا مخالف اقدامات تھے۔
عراق کے شیعہ ملیشیا کی جانب سے تیار کردہ ایک میوزک ویڈیو میں سپاہیوں کو دیوار پر جنرل سلیمانی کی تصویر سپرے سے پینٹ کرتے اور اس کے سامنے پریڈ کرتے دکھایا گیا۔
بی بی سی کے مطابق 2013 میں سی آئی اے کے سابق اہلکار جان میگوائر نے امریکی جریدے دی نیویارکر کو بتایا تھا کہ سلیمانی مشرقِ وسطیٰ میں سب سے طاقتور کارندے تھے۔ بی بی سی فارسی کی ایک دستاویزی فلم کے لیے ایک انٹرویو میں عراق میں سابق امریکی سفیر رائن کروکر نے بھی کہا تھا کہ جنرل سلیمانی کا بغداد مذاکرات میں اہم کردار تھا۔ رائن کروکر کے مطابق انھوں نے جنرل سلیمانی کے اثرو رسوخ افغانستان میں بھی محسوس کیا تھا جب وہ بطور امریکی سفیر افغانستان میں تعینات تھے۔
قاسم سلیمانی ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے واجبی سی باقاعدہ تعلیم حاصل کی لیکن پاسدارانِ انقلاب میں شمولیت کے بعد وہ تیزی سے اہمیت اختیار کرتے گئے۔ 1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی ایران عراق جنگ میں قاسم سلیمانی نے اپنا نام بنایا اور جلد ہی وہ ترقی کرتے کرتے سینیئر کمانڈر بن گئے۔
1998 میں قدس فورس کے کمانڈر بننے کے بعد سلیمانی نے بیرونِ ملک خفیہ کارروائیوں کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے اثر میں اضافہ کرنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے اتحادی گروہوں کو ہر ممکن مدد فراہم کی اور ایران سے وفادار ملیشیاؤں کا ایک نیٹ ورک تیار کر لیا۔
کہا جاتا ہے کہ اپنے کریئر کے دوران قاسم سلیمانی نے عراق میں شیعہ اور کرد گروپوں کی سابق آمر صدام حسین کے خلاف مزاحمت میں مدد کی جبکہ وہ لبنان میں حزب اللہ اور فلسطینی علاقوں میں حماس کے بھی مددگار رہے۔
2003 میں عراق پر امریکی جارحیت کے بعد انھوں نے وہاں سرگرم گروپوں کی امریکی اڈوں اور مفادات کو نشانہ بنانے کے سلسلے میں رہنمائی بھی کی۔
قاسم سلیمانی کو بات کا کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے کہ انھوں نے شام کے صدر بشارالاسد کو 2011 میں شروع ہونے والی مسلح مزاحمتی تحریک سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی بنا کر دی۔ ایران کی زمینی اور روسی فضائی مدد نے بشارالاسد کو باغی فوج کے خلاف جنگ میں پانسہ پلٹنے میں مدد دی۔
اپریل 2019 میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے قاسم سلیمانی کی قدس فورس اور ایرانی پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد قرار دیا اور الزام لگایا کہ قدس فورس لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین اسلامک جہاد سمیت امریکا کی طرف سے دہشت گرد قرار دیے گئے گروہوں کی مشرقِ وسطیٰ میں مدد کے لیے ایران کا بنیادی ڈھانچہ ہے اور یہ فورس انھیں مالی مدد، تربیت، ہتھیار اور آلات فراہم کرتی ہے۔
سلیمانی 3 جنوری 2020ء کو بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب امریکی فضائی ڈرون حملے میں ابو مہدی المہندس اور دس دیگر افراد کے ہمراہ جاں بحق ہو گئے۔ اس حملے کا حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔
قاسم سلیمانی، ابومهدی المهندس اور دیگر تمام جاں بحق افراد کی نماز جنازہ 4 جنوری 2020 کو بغداد اور کاظمین میں ادا کی گئی جس میں ہزاروں عراقی شہریوں نے شرکت کی۔
5 جنوری 2020 کو جنرل قاسم سلیمانی ،ابومهدی المهندس اور دیگر تمام ایرانی شہدا کے جسد خاکی ایران لائے گئے جہاں پہلے اہواز اور مشہد میں نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ان دو شہروں میں لاکھوں لوگ امریکا سے انتقام چاہتے تھے۔
6 جنوری 2020 کو قاسم سلیمانی، ابومهدی المهندس اور دیگر شہدا کی نماز جنازہ تہران اور قُم میں ادا کی گئی۔ تہران میں شہدا کی نماز جنازہ رہبر اعلیٰ ایران سید علی خامنہ ای کی اقتدا میں ادا کی گئی۔ تہران میں ادا کی گئی نماز جنازہ میں لاکھوں کا اجتماع تھا۔ کہا جاتا ہے کہ امام خمینی کی نماز جنازہ کے بعد یہ ایران میں جنازہ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔
قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران نے عراق میں امریکی اور اتحادی فوجی اڈوں پر میزائل حملے کیے تھے تاہم اس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کسی بھی رد عمل کے اظہار سے اجتناب کیا تھا۔ ایرانی قیادت نے تب تہران کی طرف سے کیے گئے ان حملوں کو ایک ‘تھپڑ‘ قرار دیتے ہوئے ‘مزید انتقام‘ کا عزم ظاہر کیا تھا۔