از : سہیل شہریار
وزارت خزانہ نے حکومت کے کاروباری اداروں کی مالی سال 2020-21اورمالی سال2021-22کی کارکردگی کی رپورٹ جاری کردی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حکومت کے ان سفید ہاتھیوں نے دو مالی سالوں کے دوران 10کھرب 39ارب 50کروڑ روپے سے زیادہ کانقصان کیا ہے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی اایم ایف ) کی شرائط کے تحت تیارکی جانے والی اس رپورٹ کو سرکاری شعبے کے کاروباری اداروں کی جامع رپورٹ برائے سال 2020-22 کا نام دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیر جائزہ دونوں مالی سالوں میں حکومت کے کاروباری اداروں کی جانب سے کیا گیا نقصان ان سالوں کے سالانہ ترقیاتی پروگراموں کی مجموعی مالیت سے زیادہ تھا۔
رپورٹ کے مطابق 81 تشخیص شد ہ سرکاری اداروں نے مالی سال2020-21 میں 238 ارب روپے سے زیادہ کاخالص نقصان اٹھایا تھا۔جن میں سے 56 اداروں نے 427.43 ارب روپے کا مجموعی منافع اور 25 اداروں نے 665 ارب روپے کا مجموعی نقصان کیا تھا۔جبکہ اس سے اگلے مالی سال 2021-22میں 50 اداروںنے 568.44 ارب روپے کے مشترکہ منافع کی اطلاع دی۔ تاہم بقیہ 31 اداروں کے 730.26 ارب روپے کے مجموعی نقصان کے نتیجے میں تقریباً 162 ارب روپے کا خالص نقصان ہوا۔رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ منافع بخش کاروباری اداروں کی تعداد مالی سال 21 میں 56 سے کم ہو کر مالی سال 22 میں 50 رہ گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق تقریباً ایک دہائی سے بند پاکستان اسٹیل ملز کا 2021 میں 18.75 ارب روپے کا خسارہ اگلے سال ایک بھی بیلٹ تیار کیے بغیر یا اسٹیل بار فروخت کیے بغیرحیرت انگیز طور پر 7.15 ارب روپے کے منافع میں بدل گیا۔ رپورٹ میں چار پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو 2021 میں منافع سے 2022 میں شدید نقصانات سے دوچار ہوتے بھی دکھایا گیا ہے۔ ان میں 2021 میں اسلام آباد الیکٹرک کا 3.5 ارب روپے کا منافع شامل تھا۔جو ایک سال بعد 16.4 ارب روپے کے نقصان میں چلا گیا۔ گوجرانوالہ الیکٹرک کا 1 ارب روپے کا منافع اگلے سال 20.6 ارب روپےکے نقصان میں تبدیل ہو گیا۔ اسی طرح، ٹرائبل الیکٹرک نے 2021 میں 5.5 ارب روپے کا منافع دکھایا لیکن اگلے سال اسے 21 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ملتان الیکٹرک کا 10 ارب روپے کا منافع 23 ارب روپے کے نقصان میں تبدیل ہوا۔ جبکہ 2021 میں لاہور الیکٹرک کا 17.6 بلین روپے کا نقصان تقریباً دوگنا ہو کر ایک سال بعد 30 ارب روپے ہو گیا۔البتہ 2021 میں حیدرآباد الیکٹرک کا 75 ارب روپے کا خسارہ 2022 میں کم ہو کر 54 ارب روپے پر آ گیا۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) دونوں متذکرہ سالوں میں سب سے زیادہ خسارے میں جانے والا ادارہ رہا۔ جس کا دونوں مالی سالوں کا مجموعی نقصان422ارب روپے تھا۔جن میں سے 2021 میں 255ارب روپے اور 2022 میں 167ارب روپےکا نقصان شامل ہیں جو وفاقی حکومت کے سالانہ اخراجات کے تقریباً برابر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تجارتی سرکاری اداروں کاپورٹ فولیو کارپوریٹ ٹیکس، منافع اور روزگار کے ذریعے قومی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مالیاتی شعبے کے اثاثے بشمول بینک، انشورنس کمپنیاں، نان بینکنگ فنانسنگ کمپنیز (این بی ایف سی) اور ترقیاتی مالیاتی ادارے (ڈی ایف آئی) مالی سال 2022 میں 89کھرب روپے تک پہنچ گئے جو گزشتہ دو مالی سالوں میں مسلسل ترقی کو ظاہر کرتا ہے۔ان اداروں کی آمدنی گزشتہ مالی سال 2021 سے 31 فیصد بڑھ کرمالی سال 2022میں 614.65 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ مالیاتی شعبے کا خالص منافع 72.57 ارب روپے تک بڑھ گیا۔ جو کہ سال بہ سال 46.5 فیصد کا اضافہ ہے۔
اسی طرح79کھرب روپے کے اثاثہ جات کے ساتھ، انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن سرکاری اداروں میں دوسرے سب سے بڑے شعبے کے طور پر کھڑا ہے۔ یہ شعبہ جس میں این ایچ اے سر فہرست کے اثاثوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (PIA) کی افرادی قوت میں کمی کی وجہ سے اس کےملازمین کے اعداد و شمار 117,028 افراد تک گر گئے۔تاہم آمدنی میں38 فیصد خاطر خواہ اضافہ کے باوجود اس شعبہ کو 294.5 ارب روپے کے خالص نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
تیسرے نمبر پرمینوفیکچرنگ، کان کنی اور انجینئرنگ کے شعبےکے اثاثوں کی مالیت میں بھی نمایاں جو2022میں 49 فیصد بڑھ کر 904.52 ارب روپے تک پہنچ گئےاور گزشتہ سالوں کے نقصانات کے مقابلے میں 12.27 ارب روپے کا خالص منافعحاصل کیا۔جبکہ تیل اور گیس کے شعبے نے 56کھرب روپے کے اثاثوں کے ساتھ توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی بدولت 2022میں آمدنی میں 82 فیصد اضافہ حاصل کیا۔
139,000 افراد سے زیادہ افرادی قوت کے ساتھ پاور سیکٹرکے اثاثے 64کھرب روپے تک پہنچ گئے۔ مگر ایکویٹی کے مستقل چیلنجزکی وجہ سے خالص نقصانات میں اضافہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں اس شعبے کو حکومتی تعاون پر کافی انحصارکرنا پڑا۔اگرچہ مالی سال 2022 میں قیمتوں میں خاطر خواہ اضافے کی وجہ سے اس شعبے نے محصولات میں اضافے کا مظاہرہ کیا جو30کھرب تک پہنچ گئے مگر آپریشنل مارجن تشویش کا باعث بنا رہا۔
وزارت خزانہ کی رپورٹ میں شامل 81 حکومتی کاروباری اداروں میں پاکستان براڈکاسٹنگ اور پاکستان ٹیلی ویژن کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ ادارے بھی عوام پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ ان دونوں نے بھی حکومت کو صفر ڈیویڈنڈدیا ہے۔ اگرچہ پی ٹی وی بجلی کے بلوں سے حا صل ہونے والی آمدن کی بدولت دونوں مالی سالوں میں منافع میں رہا۔ البتہ یہ منافع 2021کے ساڑھے 6کروڑ روپے سے کم ہو کے 2022میں 4کروڑ کے قریب رہ گیا تھا ۔ حالانکہ نو چینلز کا نیٹ ورک ملک کی آبادی کے 90 فیصد سے زیادہ تک پہنچ گیا ہے۔ ادھر پاکستان براڈکاسٹنگ نے گرتی ہوئی مالی کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھا اور2021 میں اس کا 7کروڑ 41لاکھ روپے کا نقصان 2022 میں بڑھ کر 1.142 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
اس رپورٹ نے ایک مرتبہ پھر اس امر کی تصدیق کر دی ہے کہ کاروباری ادارے چلانا حکومتوں کا کام نہیں۔ ہمارا صنعتی و مالیاتی شعبہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نیشنلائزیشن کے فیصلے کے منفی اثرات سے آج نصف صدی بعد بھی باہر نہیں آسکا ہے۔پچھلی تین دہائیوں سے سرکاری کاروباری اداروں کو سیاست کی نذر کئے جانے کے بعد سے انکی کارکردگی مسلسل انحطاط کا شکار ہے ۔ پی آئی اے جب دنیا کی بہترین ائرلائنز میں سے ایک تھی تو اسکے ملازمین کی مجموعی تعداد 40ہزار سے کم تھی ۔ اسی طرح پاکستان ریلویز بھی جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہیں بنا تھا تو 30ہزار سے زائد ملازمین کے ساتھ ایک بہترین سہولتوں کا حامل منافع بخش ادارہ تھا ۔ واپڈا کو دیکھیں تو اسکی بھی یہی صورت حال تھی ۔ جبکہ پاکستان اسٹیل ملز کی بات کی جائے تو یہ بھی ابتداً صرف 10ہزار ملازمین کا حامل ادارہ تھا۔
مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ کاروباری ادارے چلانا حکومتوں کا کام نہیں ۔چنانچہ کسی سیاسی ودیگر مصلحت کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہمیں قومی معیشت کی ابتر حالت کو دیکھتے ہوئے ان سفید ہاتھیوں سے جنگی بنیادوں پر چھٹکارا حاصل کر لینا چاہیے۔ورنہ ان لا بوجھ اٹھانا ہماری گرتی معیشت کے لئے ناقابل برداشت ہو جائے گا۔ جن کا خسارا اس وقت تو وفاقی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے برابر ہے مگر آنے والے کل میں یہ تیزی سے بڑھے گا