افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد اور طالبان کی مسلسل پیش قدمی پر سابق افغان صدر حامد کرزئی نے مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے۔
دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں حامد کرزئی، افغانستان کی قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ ، یونس قانونی، کریم خلیلی، محمد محقق، سلام رحیمی، عبدالرشید دوستم، گلبدین حکمت یار، سید سعادت منصور نادری، عنایت اللہ بالغ اور فاطمہ غنی پر مشتمل وفد طالبان سے ملاقات کرے گا۔
ابھی یہ طے نہیں ہو سکا کہ طالبان کی طرف سے افغان رہنماؤں کے ساتھ کون بات چیت کرے گا۔
حامد کرزئی نے کہا کہ افغانستان میں غیر ملکی طاقتوں کا افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی اور اثر و رسوخ دو صدیوں پرانا ہے۔
افغان رہنما پُرامید ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ان کی کوئی راہ نکل آئے گی تاہم اس کے لئے بات چیت کا تسلسل ضروری ہے۔ حامد کرزئی نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان کو مصالحت کے کسی بھی موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ بامقصد مذاکرات جلد ہی شروع ہو جائیں گے۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ امید کا دامن اور ملک نہ چھوڑیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حامد کرزئی نے کہا کہ عوام صبر کریں، اپنے مقاصد کا تعین کریں اور آگے کی طرف بڑھیں۔
واضح رہے کہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فورسز کی 20 سال بعد واپسی ہو رہی ہے۔ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان نے پیشقدمی کرتے ہوئے افغانستان کے بڑے علاقے پر کنٹرول سنبھال لیا ہے جس سے افغان حکومت کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔