ظہیر احمد
جمعہ 15 اپریل 2022 کو وفات پانے والی بلقیس ایدھی کے جانے سے ہزاروں یتیم بچے اپنی ممی سے محروم ہوگئے ۔ شوہر عبدالستار ایدھی کے شانہ بشانہ بلقیس ایدھی نے بھی اپنی زندگی انسانیت کے دکھ بانٹنے میں گزار دی ۔ایدھی صاحب کو بلقیس نہ ملتی توشاید کتنے ہی دکھ کے مارے بے سہارا معاشرے کا روشن چراغ نہ بن پاتے ۔ بلقیس ایدھی سرخرو ہوکر اپنے رب کے حضور پیش ہوچکیں اور پاکستانی قوم دل وجان سے کہتی ہے ۔ شکریہ بلقیس ایدھی ۔
بلقیس ، ایدھی صاحب کے نرسنگ اسکول کیسے پہنچیں ؟
1947 کو پیدا ہونے والی بلقیس کا بچپن شرارتوں سے بھرپور رہا ۔ انہیں فلمیں دیکھنے کا شوق تھا اور وہ سہیلیوں کے ساتھ دوپہر کا شو دیکھنے سنیما چلی جاتیں ۔ اسکول میں ان کی ساتھی لڑکیوں سے کسی نہ کسی بات پر تکرار ہوجانا معمول کی بات تھی ۔ کبھی نوٹس نہ ملنے پر غصہ کھا جاتیں اور ان کی کاپیاں تک پھاڑ دیتیں ۔ اپنی تیز مزاجی میں مشہور بلقیس ایدھی کا پڑھائی میں من کم ہی لگتا تھا ۔ گھروالوں نے سلائی سیکھنے کے لیے بھیجا وہاں استانی جی نے کسی بات پر مارا تو صاف کہہ دیا ۔وہاں نہیں جاؤں گی ۔
16 برس کی تھیں جب خالہ انہیں ایدھی کی ڈسپنسری لے گئی ۔ ایدھی صاحب نے پوچھا ۔ اتنی چھوٹی عمر ہے اس کی ، کیا اسکول نہیں جاتی ؟ خالہ نے جواب دیا۔ پورے 16 سال کی ہے، پڑھنے میں دل نہیں لگتا ، کہتی ہے کام کروں گی ۔ تب بلقیس پہلے ایدھی صاحب کے نرسنگ اسکول میں داخل ہوئیں اور پھر آخری سانس تک کے لیے ان کی زندگی کی شراکت دار بن گئیں ۔
بلقیس اور عبدالستار ایدھی کا ملن کیسے ہوا ؟
پاکستان میں دکھی انسانیت کے لیے کام کرنے والے سب سے محترم نام عبدالستار ایدھی سے شادی کرنے کو کوئی لڑکی تیار نہیں تھی ۔ بھلا چوبیس گھنٹے دوسروں کے درد کا درماں کرنے والے درویش کو کون اپنی زندگی کا ساتھی بناتا ۔
عبدالستار ایدھی سمجھتے تھے کہ اب انہیں شادی کرلینی چاہیے ۔ ان کے نرسنگ سکول میں موجود کئی نرسیں شادی سے انکار کرچکی تھیں ۔ آخرکار انہوں نے خود سے عمر میں کہیں کم بلقیس سے بات کی ۔ یہاں سے انکار نہ سن کر شادی کا پیغام ان کی والدہ تک پہنچایا ۔ بلقیس کی والدہ نے پہلا خدشہ یہی ظاہر کیا ۔ میری بیٹی کھائے گی کیا ؟
اس کی وجہ وزیراعظم شہبازشریف کی اہلیہ تہمینہ درانی عبدالستار ایدھی کی سوانح حیات ’اے مِرر ٹو دی بلائنڈ‘میں لکھتی ہیں ۔دراصل بلقیس کی ماں رابعہ صرف 19 سال کی تھیں جب شوہر فوت ہوگیا ۔ کم عمری میں بیوگی کا دکھ سہنے والی رابعہ بلقیس اور دو بیٹوں کو لے کربھارت سے پاکستان چلی آئیں اور ساری زندگی دوسری شادی نہیں کی ۔ کھارادر میں وہ ایک خاتون ٹیچر کے پاس 20 روپے کی نوکری کرکے بچے پالتی رہیں ۔ اس لیے جب بیٹی کا رشتہ آیا تو یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب تھیں ۔
اس پر عبدالستار ایدھی بولے ۔ ’میں نہ تو کسی کے بھروسے پر زندہ ہوں اور نہ ڈسپینسری سے کچھ لے رہا ہوں، ذاتی آمدن سے پورے خاندان کو سنبھال سکتا ہوں۔‘بیٹی کی رضامندی دیکھ کر ماں توجیسے تیسے مان گئی لیکن سہیلیوں نے بہت سمجھایا ۔ دیکھ لو دونوں کی عمر میں بھی کافی فرق ہے اور تو اور اس کی تو داڑھی بھی ہے ۔
بلقیس کے اقرار پر کسی کی ایک نہ چلی ۔ ماں نے بیٹی کو نئے کپڑوں کے لیے 500 روپے اور 15 تولہ سونا جہیز دیا لیکن عبدالستار ایدھی نے کچھ بھی نہ لیا اور جبکہ باورچی خانے کا ضروری سامان پہلے سے جمع تھا لیکن ایدھی نے یہ سب لینے سے انکار کر دیا اور یوں 9 اپریل 1966 کو دونوں کی شادی ہو گئی۔
نکاح کے وقت ایدھی صاحب کہاں چلے گئے ؟
بھلا کوئی اپنی بارات بھی چھوڑ کر جاتاہے ۔ نظاہر تو یہ ناممکن سی بات لگتی ہے لیکن بلقیس ایدھی کو وہ وقت نہیں بھولا جب وہ دلہن بنے بیٹھی تھی ۔ مسجد میں نکاح کے لیے لوگ جمع تھے ۔ ایسے میں جب رخصتی کا وقت آیا تو دلہا کو اطلاع ملی ایک بچہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے ۔ اسے فوری اسپتال نہ پہنچایا تو جان سے چلاجائے گا۔
جیسے ہی یہ بات دلہا کو بتائی گئی ۔ وہ اپنی دلہن اور رخصتی کو بھول بھال کر چل پڑے ۔ سرخ جوڑا پہنے دلہن اپنے پیا کا انتظار کرتی رہ گئی ۔ شادی کی یہ پہلی رات دلہن نے رشتے داروں کے پاس گزاری اور دلہا میاں اسپتال میں بچے کی جان بچانے کی تگ ودو کرتے رہے ۔
ایدھی صاحب جب بلقیس پر سوتن لے آئے ؟
بلقیس ایدھی نے اپنی ازدواجی زندگی میں کئی محرومیوں کا سامنا کیا ۔ زندگی دوسروں کا دکھ بانٹنے میں گزرتی رہی ۔ میاں بیوی کبھی آؤٹنگ پر تب ہی جاپاتے جب ایدھی صاحب کسی میت کو کسی اور شہر ایمبولینس پر لے کر جاتے توانہیں بھی ساتھ لے جاتے ۔ یہ بلقیس ایدھی اور ان کے بچوں کی آؤٹنگ ہوتی تھی ۔
اور تب تو غضب ہی ہوگیا جب بڑھاپے میں عبدالستار ایدھی نے اچانک دوسری شادی کرلی اور کچھ ہی عرصے بعد وہ خاتون تین کروڑروپے سے زیادہ رقم تجوری سے نکال کر نودو گیارہ ہوگئی ۔ سوتن کے آنے اور اس کے چلے جانے پر بھی بلقیس صبر کی تصویر بنی رہیں ۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں بلقیس ایدھی سے پوچھا گیا ۔ ایدھی صاحب کو دوسری شادی سے منع نہیں کیا ؟ اس پر بلقیس ایدھی نہیں کیا۔ مرد تو شیر ہوتا ہے ۔ انہیں کیسے روک سکتی تھی ۔
بلقیس ایدھی کی بیٹیوں کی شادی کیلئے انوکھی شرطیں
ایدھی فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کے مطابق بلقیس ایدھی اوران کے شوہر نے 16 ہزارلاوارث بچے گود لیے تھے ۔ ان میں بے سہارا اور یتیم بچیاں بھی تھیں ۔ جنہیں وہ ماں کی طرح پال کر بڑا کرتی اور پھر لڑکے والوں کی کڑی جانچ پڑتال کے بعد بیاہ کر رخصت کردیتیں ۔ جب رشتہ آتا تو وہ لڑکی کولڑکا اور ا س کا گھر دکھاتی ، اگر لڑکی رضامندی ظاہر کرتی تو بات آگے بڑھائی جاتی تھی ۔ اس موقع پر بلقیس ایدھی یہ شرط بھی رکھتیں کہ دلہا اپنی دلہن کو مہینے میں کم ازکم ایک بار سمندر پر لے جائے گا اور آئس کریم کھلائے گا یا کولڈ ڈرنک پلائے گا۔
بلقیس کی ایک بات جو ایدھی صاحب نے کبھی نہ مانی
بلقیس کی ایدھی صاحب سے شادی ہوئی تو وہ اپنی ڈسپنسری کی چھت پر رہنے لگے ۔ اس دوران بچے بھی ہوگئے ۔ بلقیس ایدھی باربار اپنے شوہر سے کہتی تو ایک تین کمروں والا گھر دلادیں جس کی گیلری میں وہ کپڑے دھو کر سکھا سکیں۔ اب تو بچے بھی ہوگئے ہیں کچھ تو خیال کریں لیکن بیوی کی یہ خواہش کبھی شوہر کے سامنے اہمیت نہ پاسکی ۔ پھر ایک روز طے پایا کہ ڈسپنسری میں ٹی بی وارڈ کھولاجائے ۔ ڈاکٹرز نے ایدھی صاحب سے کہا ، بچے چھوٹے ہیں وہ ٹی بی کے مریضوں سے متاثرہوسکتے ہیں ۔ بلقیس کو لگا کہ اب اپنے گھر کا خواب پورا ہونے کا وقت آگیا لیکن ہوا کیا ۔ ایدھی صاحب نے بلقیس کو بچوں کے ساتھ ان کی والدہ کے گھر بھیج دیا۔
بلقیس ایدھی سرخرو ہوگئیں
عبدالستار ایدھی مرحوم اپنی زندگی میں بارہا اعتراف کرتے رہے کہ بلقیس ایدھی کی مدد اور خدمت کے بغیر ایدھی فاؤنڈیشن چلانا ناممکن تھا۔ ایدھی فاؤنڈیشن میں ہاتھ بٹانے کے ساتھ ساتھ وہ بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی سربراہ بھی تھیں ۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کے مطابق ایدھی صاحب اور بلقیس ایدھی نے 16 ہزار لاوارث بچے گود لیے ۔ وہ کہتی تھیں ۔ میرے پانچ بچے ہیں لیکن مجھے کبھی نہیں لگا کہ باقی کے بچے میرے نہیں ۔ جب یہ مجھے ممی کہہ کر بلاتے ہیں تو دل بڑا ہوجاتا ہے ۔ بے شک بلقیس ایدھی سرخرو ہوگئیں ۔پاکستانی قوم آپ کو سلام پیش کرتی ہے اور ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں محل عطا کرے تاکہ آپ کی دنیا میں اپنے گھر کی حسرت کو تعبیر مل سکے (آمین )