تحریر: مسعود احمد خان
دنیا میں اسپیشل ایٹمی مواد بہت کم ہیں جو کہ خاص طور پر نیوکلیئر بم بنانے میں کام آتا ہے ۔ دیکھا جائے تو دنیا میں صرف کچھ ریاستوں میں اس قدر مہنگے اور نایاب مواد کے ذخائر موجود ہیں۔ اس لیے اس مواد کی حفاظت بھی ان ریاستوں کی ذمہ داری ہے جن کے پاس یہ ہیں۔ تاہم، جوہری چوری اور اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے ساتھ، بھارت اس ذمہ داری میں بری طرح ناکام ہو رہا ہے۔
یہ عجیب و غریب واقعات نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی تشویش کا باعث ہیں۔تازہ ترین حالیہ واقعات میں سے ایک واقعہ2021 اگست کے مہینے کا ہے، جس کے دوران بھارتی حکام نے 250 کلو گرام تابکار عنصر کیلیفورنیم قبضے میں لیا تھا۔ ضبط شدہ مواد کی مالیت 573 ملین ڈالر تھی۔
اس سے قبل ایک ہی سال میں دو اور واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ پہلا واقعہ مئی کے مہینے میں پیش آیا جس کے دوران بھارتی پولیس نے 7 کلو گرام قدرتی یورینیم قبضے میں لے لیا۔ مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے مطابق اس مواد کی مالیت 2.9 ملین ڈالر تھی۔ بعد ازاں جون کے مہینے میں، بھارتی پولیس نے سات افراد کو گرفتار کیا، اور ان کے پاس سے 6.4 کلو گرام یورینیم ضبط کیا گیا۔ ایسے واقعات کے تناظر میں پاکستان کی جانب سے تشویش جائز ہے کیونکہ ایسے واقعات علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ۔ تاہم، ہندوستان کی جوہری سلامتی میں اس طرح کی واضح خامیوں کے باوجود، عالمی برادری کی طرف سے خاموشی چھائی ہوئی ہے۔
ہندوستانی حکومت کے عہدیداروں کے مطابق، 2013 میں، شمال مشرقی ہندوستان میں گوریلا جنگجوؤں نے شمال مشرقی ہندوستان میں ایک سرکاری ملنگ کمپلیکس سے غیر قانونی طور پر یورینیم ایسک حاصل کیا اور پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے سے پہلے اسے ایک خام بم بنانے کے لیے بڑے دھماکہ خیز مواد میں باندھ دیا۔
گویا یہ کافی نہیں تھا، دسمبر 2016 میں تھانے میں دو افراد سے تقریباً 9 کلو تابکار یورینیم پکڑا گیا۔ ایک بار پھر 2018 کے اوائل میں کولکتہ پولیس نے ایک کلو تابکار مواد کے ساتھ یورینیم کی اسمگلنگ کے ریکیٹ کا پردہ فاش کیا۔ بھارت میں جوہری اسمگلنگ کا نمونہ اور غیر ریاستی عناصر کو جوہری مواد کے حصول سے روکنے میں حکومت کی نا اہلی واضح طور پر بتاتی ہے کہ بھارت میں ایک جوہری بلیک مارکیٹ موجود ہے جس کی جڑیں بھارت کے جوہری تحفظ اور سلامتی کے طریقہ کار میں گہری ہیں۔2021 میں صرف ایک ہی ماہ میں جوہری چوری کے دو بڑے واقعات رپورٹ ہوے جن میں جوہری تنصیبات کے سرپرست بھی ایسے گھناؤنے جرم میں ملوث نکلے ۔
اگرچہ بھارت اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے لیکن اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ اتنی بڑی مقدار میںیورینیم کیوں اور کیسے حکومت کی نگرانی کے باوجود چوری ہو گیا ۔ بھارت ایک ذمہ دار جوہری ہتھیاروں کی حامل ریاست ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے، لیکن چوری کے بار بار ہونے والے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت میں جوہری مواد فروخت ہو رہا ہے۔ عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ بھارت میں جوہری مواد کے چوری کے واقعات میں اضافہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھارت سے سختی سے نمٹا جائے تاکہ کسی بھی دہشت گردی سے اس خطے کو محفوظ بنایا جا سکے ۔ 2008 میں این ایس جی نے ہندوستان کو تجارتی چھوٹ دی تھی۔ اسی کے نتیجے میں، ہندوستان نے بین الاقوامی یورینیم مارکیٹ تک رسائی حاصل کی اور یورینیم کا ایک بڑا ذخیرہ تیار کرلیاجسکی اب وہ حفاظت کرنے سے قاصر ہے ۔ این ایس جی ممالک کو جوہری سلامتی میں کوتاہی کے لیے ہندوستان کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ بار بار ہونے والے جوہری واقعات عالمی امن و سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہندوستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ بیرون ملک یورینیم کے مزید ذخائر تک رسائی حاصل کرنے کے بجائے اندرون ملک جوہری مواد کو محفوظ بنانے۔
بھارت کی ناقص جوہری حفاظت اور سلامتی نے بھی جوہری دہشت گردی کے خطرے کو بڑھا دیا ہے۔ قانونی اور ادارہ جاتی انتظامات کے باوجود، ہندوستان کا عدم پھیلاؤ کا ریکارڈ مسائل کا شکار ہے۔ مزید یہ کہ اس کے جوہری انفراسٹرکچر کی حفاظت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ جوہری اسمگلنگ سے متعلق معاملات پر بھارت کی غیر شفاف پالیسی ہے۔ بھارت کی طرف سے اپنی حفاظت اور سلامتی کے آلات میں خامیوں کے حوالے سے یہ غیرسنجیدہ رویہ نہ صرف قومی بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بین الاقوامی جوہری اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان اپنے جوہری ڈھانچے اور مواد کو محفوظ اور مستحکم کرے۔