تحریر: سلمان احمد لالی
آج کا دن پاکستان کیلئے خوشخبری کا دن ہے ، حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پانے کے قریب ہے اور چین سے بھی قرض ملنے کا اعلان آگیا ہے۔ روپے کی قدر مستحکم ہوئی جبکہ دیگر ذرائع سے مالیاتی پیکج ملنے کی امید بھی بڑھ گئی ہے۔ ان خبروں کے پیش نظر ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قدر میں کمی کی پیشین گوئی کی جارہی ہے اورجلد پاکستانی روپے کی قدر میں مزید استحکام نظر آنے کی امید ہے۔ لیکن ابھی اصل مرحلہ باقی ہے۔ اور وہ ہے آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو حتمی شکل دے کر عملے کی سطح پر ایک معاہدے پر دستخط کرنا۔
لیکن اس مرحلے تک پہنچے کیلئے پاکستانیوں نے کئی مہینوں کا دردناک سفر طے کیا جس کےد وران ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات نے ملک بھر میں تشویش کی لہر کو جنم دیا۔ خبروں کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ 6ارب ڈالر کے فنڈ کی بحالی پر ڈیل طے پا گئی اور اس رقم اور پروگرام کے دورانیہ میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ یہ وہ خبر ہے جو سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ کرے گی۔ جلد ہی فاریکس مارکیٹ میں ڈالر کی بڑے پیمانے پر فروخت کا رجحان نظر آسکتا ہے۔ جس سے بڑی حد تک بحران ٹل جائے گا۔
لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال مکمل طور پر بہتر ہوجائے گی؟ یا عوام کو کوئی ریلیف میسر آسکے گا؟ نہیں، ریاست کو آئندہ مالی سال میں 40ارب ڈالر تک اضافی فنڈز کی ضرورت ہے۔ یعنی پاکستان کو ترسیلات زر کے دیگر ذرائع جیسا کہ بر آمدات، بیرو ن ملک پاکستانیوں کی بھیجی رقوم وغیر ہ بہت ناکافی ہیں۔ اسلئے پاکستان کو قرضوں اور سود کی ادائیگی اور دیگر در آمدی ضروریات کیلئے چالیس سے اکیالیس ار ب ڈالر مزید قرض لینا ہوگا۔
اگر پاکستان کو آئندہ مالی سال میں یہ قرض لینا ہے تو ظاہر عوا م کو ریلیف تو نہیں ملے گا۔ کیوں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والی ڈیل میں عوام پر مزید کچھ بوجھ منتقل کیا جائےگا۔ مثلا 436ارب روپے کے اضافی ٹیکس، 50روپے فی لیٹر تک پیٹرولیم لیوی کو بتدریج عائد کرنے کے علاوہ بجٹ میں تجویز کردہ کچھ اقدامات کو واپس لینا وغیرہ۔جس کے بعد آئی ایم ایف پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کردے گا۔
لیکن وزیر خزانہ کا یہ بیان کافی غور طلب ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کیلئے مجوزہ فنڈ 6ارب سے 8ارب ڈالر تک بڑھا دے گا ۔ کیا یہ امید ہے یا اس پر کوئی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ اگر یہ یقین دہانی ہے تو اس کا اعلان کب تک متوقع ہے ، اس پر بڑی حدتک صورتحال اگلے چند دنوں میں واضح ہوجائے گی۔
گوکہ حکو مت نے دعویٰ کیا ہے کہ بجٹ میں عائد کردہ اضافی ٹیکسز صرف امیر افراد اور کاروباری اداروں پر ہی عائد کیا جائے گا ، پر کم ہی اعتماد کیا جارہا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی قسط اور چینی قرض کے منتقلی کے بعد دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بچ چکا ہے۔ تاہم یہ بات غور طلب ہے کہ آخر کب تک؟ فیٰ الحال اگر پاکستان اس اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہونے سے بچا ہے جس سے سری لنکا گزرا۔ لیکن ہمارے تمام خساروں کاتریاق قرض ہی کیوںہے؟ یہ بات بہت بھی قابل غور ہے کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور دیگر سخت اقدامات کی وجہ سے معیشت کی شرح نمو بہت متاثر ہوگی۔ اگر آنے والے دنوں میں عالمی کسادبازاری کا خطرہ حقیقت بن جاتا ہے تو پاکستانی بر آمدات میں کمی ایک فطری امر ہے۔ ایسے میں یہ سال تو گزر جائے گا آئندہ مالی سال ملک کیا کرے گا؟ کس کس کے پاس ہاتھ پھیلانے جائے گا؟ کیا یہ حکومت ملک کے نظام حکومت اور معیشت میں ایسی اصلاحات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کہ جس سے پاکستان کے مالیاتی مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے؟ میرے خیال میں اس کی امید کافی کم ہے۔ جو حکومت آئی ہی اپنے کیسز ختم کروانے، نیب کے قانون میں تبدیلی لانے اور اورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کو غصب کرنے کیلئے ہے وہ اصلاحات کا نہ تو ایجنڈا رکھتی اور نہ ہی ویژن ۔ ملک کو یوں ہی چلایا جائے گا اور جو اصلاحات عمران خان کے دورمیں کی گئی ہیں انکو بھی آہستہ آہستہ ختم کردیا جائے گا۔
اسکے علاوہ چند ماہ بعد نومبر آنے والا ہے، بعض ذرائع کے مطابق عمران خان کو اس وعدے پر لانگ مارچ ختم کرنے پر آمادہ کیا گیا کہ بجٹ پیش کرنے کے بعد نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا۔ میری اطلاعات کے مطابق ایسا کچھ نہیں ہونا اور نومبر سے پہلے ہی ایک انہونی ہوجانی ہے۔توقعات اور اعلانیہ پوزیشن کے برعکس ایک طاقتور ہستی کے اقتدار کے دوا م کے منصوبے پر کام ہورہا ہے۔ پاکستان میں آئندہ کیا ہوگا اس کا دار و مدا ر اس ایک فیصلے پر ہے۔ پاکستان میں استحکام یا عدم استحکام کا دار و مدار بھی اسی ایک فیصلے پر ہے۔