ترکی کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی کے معاہدے سے دستبردار ہو جائے، طالبان

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی کے معاہدے سے باہر آ جائے۔ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ جیسا کے ہر ایک جانتا ہے دوحہ معاہدے کے نتیجے میں تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے واپس جا رہی ہیں۔ اس معاہدے کو اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے بھی منظور کیا ہے۔ افغانستان کے دوست ممالک اور ترک وزیر خارجہ میلوت چاوش اوغلو نے بھی اس معاہدے کی حمایت کی ہے۔ خود ترک وزیر خارجہ اس معاہدے پر دستخط کی تقریب میں موجود تھے۔
طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ اپنی فوج کو افغانستان میں رکھنا چاہتا ہے۔ ترکی کا یہ اقدام افغانستان پر قبضے کے مترادف ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ افغان اور ترک عوام کے درمیان تاریخی، ثقافتی اور مذہبی تعلقات انتہائی مضبوط ہیں۔ امریکہ اور ترکی کا معاہدہ افغان عوام کسی صورت قبول نہیں کریں گے کیونکہ یہ نہ صرف افغانستان پر غیر ملکی فوج کی موجودگی اور دونوں ملکوں اور عوام کے تعلقات کے لئے انتہائی مضر ہے۔
ترک حکومت کا یہ فیصلہ ناقص مشاورت ہے جو نہ صرف افغانستان کی جغرافیائی حدود کی خود مختاری اور قومی مفادات کے منافی بھی ہے۔ افغانستان اس معاہدے کا سخت مخالف ہے اور اس سے دونوں ملکوں کے عوام کے تعلقات میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ ترکی کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے اسے منسوخ کر دے۔
افغانستان کی سرزمین پر کسی بھی ملک کی فوج کی موجودگی کسی صورت قابل قبول نہیں ہے اور یہ اس فتوے کے برعکس ہے جو 2011 میں 1500 علماء نے مشترکہ طور پر دیا تھا۔ اس فتوے کی رو سے کسی بھی ملک کی فوج کی افغانستان میں موجودگی افغان سرزمین پر قبضہ تصور کی جائے گی۔
طالبان ترک عوام اور سیاستدانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ترک حکومت کو اس معاہدے سے باہر آنے پر زور دیا جائے کیونکہ اس معاہدے سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور دونوں اسلامی برادر ملک ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو سکتے ہیں۔
طالبان تمام ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ طالبان نہ کسی ملک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی ملک کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ترکی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دوحہ معاہدے کے تحت اپنی تمام فوج کو ترکی سے نکال لیا جائے تاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں کسی طرح کے مسائل پیدا نہ ہو سکیں اور ترکی کسی دوسرے ملک کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہ کرے جو افغانستان کی خود مختاری کے مخالف ہو۔
اگر ترکی نے امریکہ کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے کو ختم نہ کیا تو افغان عوام اس پر اپنے مذہبی قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی اور اسے افغانستان پر غیر ملکی فوج کی موجودگی اور قبضہ تسلیم کرتے ہوئے سخت ردعمل دے دی

افغان امن مذاکراتافغان طالبانترکی اور افغانستانترکی اور طالبانصدر رجب طیب ایردوانطالبان اور پاکستان