روس کے صدر ولاد میر پیوٹن نے کہا ہے کہ کاراباخ تنازعہ میں ترکی کی آذربائیجان کی حمایت سے کسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے۔
مقبوضہ علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنا آذربائیجان کا حق ہے اور اس کے لئے وہ ترکی سمیت کسی بھی ملک کی حمایت حاصل کر سکتا ہے۔
رشین 24 نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر پیوٹن نے کہا کہ کاراباخ تنازعے میں ترکی کے کسی بھی اقدام کو بین الاقوامی قانون کی خلاف قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ترکی شروع دن سے ہی نیگورنو کاراباخ تنازعے کے حل کے لئے قائم مِنسک گروپ کا ممبر ہے تاہم اسے کبھی بھی کوچیئر کا عہدہ نہیں دیا گیا۔
روسی صدر نے کہا کہ ترکی کے ساتھ کئی معاملات پر اختلافات ہوئے لیکن سفارتی کوششوں سے ان پر سمجھوتہ کر لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں جرمنی اور فرانس کئی سال تک آپس میں برسر پیکار رہے لیکن آج دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مختلف معاملات پر تعاون کرتے ہیں۔ اسی طرح روس اور ترکی کے تعلقات ہیں۔
انہوں نے نیگورنو کاراباخ تنازعے کے حل میں فرانس اور امریکہ کے کردار کو سراہا اور کہا کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان حالیہ جنگ بندی معاہدے اور مقبوضہ علاقے خالی کرنے کے معاہدے میں مِنسک گروپ کے تمام ممالک کو شامل نہیں کیا گیا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی ملک اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔
روسی صدر نے کہا کہ صورتحال ایسی ہو گئی تھی کہ کاراباخ تنازعہ کو فوری حل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی تھی۔ ایسے میں مِنسک گروپ کے تمام ممبرز کے ساتھ مشاورت کا وقت ختم ہو چکا تھا۔
آرمینیا کی شکست کے بعد وہاں سیاسی بحران پر بات کرتے ہوئے صدر پیوٹن نے کہا کہ موجودہ صورتحال کو برداشت کرنا ہی سب کے مفاد میں ہے اور آرمینیا کے لوگوں کو زمینی حقائق تسلیم کرنے چاہیئں۔
مستقبل میں آرمینیا کی نئی حکومت کی طرف سے دوبارہ کاراباخ پر قبضہ کرنے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے روسی صدر نے کہا کہ یہ خودکشی کے مترادف ہو گا۔