اسلام آباد(پاک ترک نیوز) حکومت نے قرض اور سود کی واپسی کیلئے 275کھرب روپے (27.5ٹریلین) کے قرض لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔حکومت نے قومی اسمبلی سے کے قرضے لینے کی منظوری طلب کرلی۔
وفاقی حکومت قرضوں کی اصل رقم اپنے بجٹ میں سے ادا نہیں کرتی بلکہ ان کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرضوں سے متعلق اخراجات کا حجم آئندہ مالی سال کے بجٹ سے بھی 3 گنا زیادہ ہے۔
وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے قومی اسمبلی کے سامنے charged expenditures کے تحت 279 کھرب روپے کی مجموعی ڈیمانڈ پیش کردی۔ اس کے علاوہ 440 ارب روپے کی منظوری قومی اسمبلی، سینیٹ، الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ، ایوان صدر، اسلام آباد ہائیکورٹ، وفاقی اور ٹیکس محتسب اور دفترخارجہ کے اخراجات کے لیے طلب کی گئی ہے۔ 279 کھرب روپے کے قرضے charged expenditure ہیں اور آئین کے تحت قومی اسمبلی ان اخراجات کو مسترد یا ویٹو کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔
وزارت خزانہ نے آئندہ مالی سال 2022-23ء کیلیے 279 کھرب روپے کے اخراجات کی فہرست قومی اسمبلی میں پیش کی جس میں 440 ارب روپے کے دیگر ( قرضوں کے علاوہ) اخراجات بھی شامل کیے گئے ہیں۔
پارلیمان کے ایوان زیریں کا کردار صرف اسے منظور کرنے کی حد تک ہے۔ قرضوں پر 39.50کھرب روپے کے سود کے علاوہ ، جو وفاقی بجٹ کا حصہ ہوگا، باقی ماندہ رقم ملکی اور غیرملکی مارکیٹوں سے براہ راست قرض لی جائے گی جو سابقہ حکومتوں کے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوگی۔