وزیر اعظم پاکستان عمران خان
قوموں کے عروج و زوال کا عمل، تہذیبوں کے عروج و زوال سے مختلف ہوتا ہے۔قومیں بیرونی حملوں کا ہدف بنتی ہیں،داخلی سطح پرشکست وریخت سے گزرتی ہیں مگر تہذیبوں کا معاملہ یہ نہیں ہے۔
تہذیبوں کو باہر سے کوئی نہیں مار سکتا،وہ صرف خود کشی کرتی ہیں۔ہر قوم کا جوہر، اس کے روحانی اصول ہیں۔جب یہ اصول مر جاتے ہیں،قومیں مردہ ہو جاتی ہیں۔مسلم تہذیب میں،ہمارے روحانی اصولوں کا ظہور،ریاستِ مدینہ کی صورت میں ہوا ، جو اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ نے قائم فرمائی۔دیگر اصولوں کے علاوہ، یہ پانچ اہم ترین بنیادی اصول تھے جن پر ریاستِ مدینہ کھڑی تھی۔
یہ اصول ہیں: توحید،انصاف اور قانون کی حکمرانی،جس کا حاصل میرٹ کا اصول ہے،توانا اخلاقی اساس،ترقی وخوش حالی میں تمام بنی نوع آدم کی شرکت اورعلم کی جستجو۔ ریاستِ مدینہ کی اس روح کے احیا کے لیے،’’قومی رحمت اللعالمین اتھارٹی‘‘ قائم کی گئی ہے۔
دوسرا اصول ’قانون کی حکمرانی‘تھا جس کا حاصل انصاف اور اہلیت کی بنیاد پر انتخاب کی صورت میں سامنے آیا۔رسالت مآب ﷺ نے واضح فرمادیا کہ کوئی قانون سے ماورا نہیں ہے۔آپ نے فرمایا کہ وہ معاشرے برباد ہو جاتے ہیں جن میں دو طرح کے قوانین ہوں:ایک امرا کے لیے اور دوسرا غربا کے لیے۔آپ کا فرمان ہے :’’اے لوگو!پچھلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں کہ ان میں سے جب کوئی بڑے مرتبے والا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کم تر مرتبے کا آدمی چوری کرتا تو اس پر سزا نافذ کردی جاتی۔خدا کی قسم،اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دوں گا۔‘‘(صحیح مسلم 1688)۔
اگرکوئی معاصر دنیا پر ایک نظر ڈالے تو بآسانی دیکھ سکتا ہے کہ سب سے کامیاب ریاستیں وہی ہیں جہاں سختی کے ساتھ قانون کانفاذ کیا جاتا ہے۔ مغربی اقوام کے علاوہ، ہم دیکھتے ہیں کہ مشرقی ایشیا کی ان اقوام میں بھی ، جوحال ہی میں خوش حال ہوئی ہیں، اس اصول پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔جاپان، چین اور جنوبی کوریا،اس کی چند مثالیں ہیں۔وہ ممالک جہاں قانون کی حکمرانی کے اصول کو پامال کیا گیا،وہ غربت اور فساد میں ڈوبتے دیکھے گئے۔
بہت سے مسلم ممالک،وسائل کی فراوانی کے باوجود،کم ترقی یافتہ ہیں۔ اس کی وجہ یہی قانون کے نفاذ کی کمی ہے۔اس کی ایک اور مثال جنوبی ایشیا ہے۔آج کے بھارت میں ،امتیازی قوانین کی حکمرانی ہے۔اس کا فوری نتیجہ غربت اور ان گنت علیحدگی کی تحریکیں ہیں جنھوں نے ریاست کی وحدت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
پاکستان میں بھی ،جب قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کیا گیا تو اس کا نتیجہ قومی خزانے سے اربوں ڈالر کی لوٹ مار کی صورت میں سامنے آیا جس نے عوام کو اجتماعی طور پر غربت میں مبتلا کر دیا۔امریکا اور لاطینی امریکا کے بہت سے ممالک میں بھی سیاست اور ترقی کا جوطریقہ کارفرما ہے،وہ بھی یہی کہانی سنا رہا ہے۔ جن ریاستوں کو’بنانا ریپبلک‘ کہا جاتا ہے،وہ بھی قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے اس حال کو پہنچیں۔ قانون کی حکمرانی اور سماجی و سیاسی ہم آہنگی میں علت اور معلول کے اس تعلق پر جتنا کہا جائے کم ہے۔
ریاست مدینہ کا تیسرا اصول تھا :عوام کی اخلاقی تشکیلِ نو۔۔۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تصور۔ قرآن مجید اسے امتِ مسلمہ کا امتیازی اصول بتاتا ہے:’’ تم بہترین امت ہو جو بنی نوع انسان کے لیے اٹھائی گئی ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (آلِ عمران3:110)
نیکی کی تلقین اور برائی کی ممانعت ایک اجتماعی فریضہ ہے جس کا مقصد معاشرے کی اخلاقی تعمیر ہے۔ اس اصول سے کسی کو اختلاف نہیں مگر ہمارے ہاں کچھ لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اخلاقی تعمیر کو لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ریاست کو نیکی وبدی کے ان تصورات کے بارے میں غیر جانب دار ہو جانا چاہیے جو مذہب نے دیے ہیں۔
یہ ایک ایسا فرسودہ خیال ہے جو کئی مسائل کا موجب ہے۔یہ ایک طرف ریاست کو روکتا ہے کہ وہ اپنی اخلاقی ذمے داری نبھائے اور دوسری طرف اس کے مخالفین کو کھلا موقع دیتا ہے کہ وہ ہمارے تعلیمی نظام اور ذرایع معلومات کو استعمال کرتے ہوئے،اپنے بے پناہ وسائل کی مدد سے، ہماری اقدار کو برباد کریں۔قومی رحمت اللعالمین اتھارٹی پْر عزم ہے کہ وہ اسکولوں اور جامعات میں، سیرت النبیﷺ کی تعلیم کے ذریعے،امر بالمعروف کی ذمے داری ادا کرے،اس امید کے ساتھ کہ اس سے ہمارے معاشرے کے اخلاقی معیارات بلند ہوں گے۔
ریاست مدینہ کا چوتھا اصول تھا، ایک فلاحی ریاست کے قیام کے ذریعے اجتماعی ترقی۔ایسی ریاست جہاں معاشرہ غریب اور ضرورت مندوں کا خیال رکھتا ہے اور ہر کوئی ریاست اور معاشرے کی ترقی میں حصہ دار ہے۔ریاست مدینہ،تاریخِ انسانیت کی پہلی مسلمہ ریاست ہے جس نے ریاست کے کمزور طبقے کی ذمے داری اٹھائی۔ہمیں چاہیے کہ اپنے رسول سیدنا محمدﷺ کی اس سنت کا احیا کریں۔ہمارے شہریوں کو اپنے معاملات میں ہاتھ کھینچنا چاہیے اور دوسروں کے لیے سخی ہونا چاہیے۔
یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ دورِ جدید میں فلاحی ریاست کا تصور مغربی یورپ کے تجربات سے ماخوذ ہے۔اس میں شبہ نہیں کہ 1950 کی دہائی سے 2010کی دہائی تک،متاثر کن فلاحی نظام قائم کیے گئے، بالخصوص سکینڈینیوین ممالک میں۔ تاہم، مغرب کی اکثر فلاحی ریاستوں کا ماڈل ماحولیاتی اعتبار سے تادیر قائم رہنے والا نہیں تھا کیونکہ یہ صارفین کے ایسے معاشروں پر مشتمل ہیں جہاں لوگ ضرورت سے زیادہ چیز یں خریدتے ہیں اور اس کے نتیجے میں غذا اور اشیائے صرف کا ضیاع بڑھ جاتا ہے۔
اگر تمام غیر مغربی دنیا،فلاحی ریاست کے اس تصور کو اپنا لے اور پیداوار، صرف اور ضیاع کے اسی راستے پر چل نکلے جو ان ریاستوں نے اختیار کیا تو ایک اندازے کے مطابق، ہمیں زمین جیسا حجم رکھنے والے چھ ایسے ظروف (سیارے) درکار ہوں گے جہاں ہم اپنے ضیاع کوٹھکانے لگا سکیں۔ایسی فلاحی ریاست نہ تو ممکن ہے اور نہ مطلوب۔چونکہ اسلام اعتدال کا راستہ ہے،اس لیے خوش حالی اور استعمال کے معاملے میں میانہ روی کا راستہ ہی ہمارے لیے مثالی ہے جس سے ہم وقار کے ساتھ ،تعلیم اور حفظانِ صحت کے عالمی معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے، اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کر سکیں۔
آخری اصول علم کی بنیاد پر وجود میں آنے والا معاشرہ ہے،جہاں خواندگی اور علم کے فرق کو اچھی طرح سمجھا جاتا ہے۔ خواندگی ممکن ہے کہ ایسی معلومات تک رسائی کا باعث بنے جو اچھے رویے کی تعلیم دیتے ہوں مگر،اس کے ساتھ یہ بھی امرِ ِواقعہ ہے کہ دنیا میں جن علاقوں میں سب سے زیادہ جرائم ہوتے ہیں،وہاں شرحِ خواندگی بھی بہت ہے۔یہ تاریخی حقیقت کسی طور نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ صدرِ اوّل اور قرونِ وسطیٰ کے کم وبیش تمام علما روحانیت کا گہرا ذوق رکھتے تھے۔
لہٰذا یہ بات قابلِ غور ہے کہ محض شرحِ خواندگی کا بہتر ہونا، خوش گوار معاشرے کے قیام کے لیے کافی نہیں ہے۔ لہٰذا، لحد سے مہد تک،ایسا علم ضروری ہے جو روحانی ارتقا کا بھی ضامن ہو۔انسانی رویے پر اثر انداز ہونے والے تمام ذرایع علم ایسے ہوں جو نفس پر قابو،شخصی ضبط، صبر،تحمل،رواداری، اور دوسروں کی مدد کے رضاکارانہ جذبے جیسی صفات پیدا کرتے ہوں۔
اپنی ان اعلیٰ اقدار اور تصورات کی روشنی میں،ہم نے چند عظیم اقدامات کے ساتھ،فلاحی ریاست کے راستے پر قدم رکھا ہے۔محدود وسائل کے باوجود،ہم نے ’احساس پروگرام ‘ جیسے ان اقدامات کے لیے اتنے وسائل مختص کیے ہیں جتنے پہلے کبھی نہیں کیے گئے۔ اس پروگرام کا آغاز2019 میں کیا گیا تھا۔یہ پروگرام سماج کے کمزور طبقات کے سماجی تحفظ اورغربت کے خاتمے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔یہ پروگرام ایک ایسی ریاست کے قیام کی طرف ہمارے بنیادی اقدامات میں سے ہے، جو اپنے شہریوں کی فلاح وبہبود کو اپنی ذمے داری سمجھتی ہے۔
’صحت سہولت پروگرام‘،پاکستانی تاریخ کے ان عظیم منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ہے جو ہمارے شہریوں کے لیے یونیورسل ہیلتھ کی سہولت فراہم کرنے کا ضامن ہے۔یہ منصوبہ غربت میں دھنسے ان کمزورشہریوں کے تحفظ ہی کے لیے نہیں ہے جو علاج کے لیے قرض لینے پر مجبور ہیں بلکہ اس سے ملک بھر میں نجی اسپتالوں کا ایک نیٹ ورک بھی وجود میں آئے گا۔ اس سے جہاں عوام کا بھلا ہوگا، وہاں نجی کاروباری طبقے کا بھی فائدہ ہوگا جو صحت کے شعبے میں کام کرنا چاہتا ہے۔
صرف پنجاب حکومت نے اس منصوبے کے لیے چار سو ارب روپے مختص کیے ہیں۔صحت سہولت پروگرام سماجی فلاحی اصلاحات کے سفر میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔یہ منصوبہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ کم آمدن رکھنے والے طبقات کے لیے، سرعت اور وقار کے ساتھ، علاج کی سہولت میسر ہو اور ان کے معاشی بوجھ میں بھی اضافہ نہ ہو۔
بعد از کورونا دور کی عالمگیر معاشی مشکلات کے باوجود،ہم نے تعلیمی اصلاحات کو نظر انداز نہیں کیا۔ ہمارا احساس اسکالرشپ پروگرام اس بات کو یقینی بنائے گا کہ غیرمراعات یافتہ اور غریب طبقے کے ہونہار طلب علموں کو اچھی تعلیم میسر آئے تاکہ اپنے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے،ان کے پاس وسیع تر امکانات ہوں۔ بشمول دیگر وظائف،اس پروگرام کے تحت چھ ملین وظائف دیے جا رہے ہیں جن کی مالیت 47بلین روپے ہے۔پاکستان کی تاریخ میں، تعلیم کے شعبے میں،اس کی کوئی مثال موجود نہیں۔
آخر میں،میں اس نکتے پر پھر سے زور دوں گا کہ پاکستان کوجو چیلنج درپیش ہیں،ان میں فوری توجہ کا مستحق قانون کے احترام کا چیلنج ہے۔ہمیں اس کے لیے جد وجہد کرنی ہے۔ ہماری ۷۵ سالہ تاریخ،اس کلچر کی اسیر رہی ہے جس میں طاقت ور اور مکار سیاست دان اور مافیا اس کے عادی ہوگئے ہیں کہ وہ قانون سے بالاتر رہ کر،اس کرپٹ سسٹم کی مدد سے حاصل کردہ اپنی سہولتوں اور مراعات کو محفوظ بنا سکیں۔
اپنی ان مراعات کا تحفظ کرتے ہوئے، انھوں نے ریاستی اداروں کو بھی کرپٹ بنایا۔بالخصوص ان کو،جن کا کام ہی یہ تھا کہ قانون کے احترام اور حاکمیت کی حفاظت کریں۔ ایسے افراد اور مافیا اس نظام سے خون چوسنے والی وہ جونکیں ہیں جو اس ملک کے ساتھ مخلص نہیں۔ پاکستان کی حقیقی قوت، وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے،ان کو شکست دینا ناگزیر ہے۔