روسی تیل اور حکومت کے بہانے

تحریر:سلمان احمدلالی
ہم روس سے سستا تیل خریدیں گے، عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ پوری میڈیا مشینری ، متحدہ اپوزیشن جماعتوں کے تمام اسباب اور وسائل کو اس دعوے کو غلط ثابت کرنے پر جھونک دیا گیا۔ کبھی کہا کہ روسی تیل خریدنے پر پابندیاں لگ جائیں گی، کبھی کہا کہ روس نے ایسی کوئی پیشکش کی ہی نہیں کہ تیس فیصد رعایت پر وہ ہمیں تیل دے گا۔ کبھی کہا گیا کہ بھارت پرانے معاہدوں کی وجہ سے بارعایت تیل خرید رہا ہے۔ اور پھر کہا گیا کہ روسی تیل تو پاکستانی ریفائنریوں میں صاف ہی نہیں ہو سکتا۔ سب کے سب جھوٹ نکلے۔ بڑے بڑے دانشور ، عقلمند اور سمجھدا ر افراد اسے پراپیگنڈا کا شکار ہوئے۔
یہ پراپیگنڈا اسی پیمانے پر کیا گیا جس پیمانے پر عمران خان کی حکومت کو معاشی تباہی کا موجب قرار دینے کیلئے پراپیگنڈا کیا گیا۔ اب اپنے ہی اعداد و شمار نکلے تو پتہ چلا پاکستان کی معیشت گزشتہ دور حکومت میں ٹھیک ٹھاک چل رہی تھی۔ اس پراپیگنڈا کا شکار مقتدر حلقوں سے منسلک بڑے عاقل لوگ بھی ہوئے۔ صحافی بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔
حالانکہ کے عمران خان پر تنقید کرنے کیلئے اور بہت سا مواد بھی موجود ہے ۔ جہاں تنقید جائز ہو وہاں کیوں نہ کی جائے۔ لیکن جھوٹ کا نتیجہ ملک کی تباہی اور بربادی کے نتیجے میں نکل سکتا ہے۔ حالات سب کے سامنے ہیں۔ اب آتے ہیں آج کی سب سے حیران کن خبر کی جانب ۔ روس سے بھارت ہی نہیں سعودی عرب بھی بارعایت تیل خرید رہا ہے۔ جی ہاں!وہ ہی سعودی عرب جو خود تیل کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے۔
اطلاع ہے کہ رواں برس کی دوسری سہ ماہی کے دوران سعودی عرب نے روسی ایندھن کی خریداری میں دوگنا اضافہ کردیا ہے۔
لیکن ایسا کیوں؟ در اصل سعودی عرب بجلی کی پیداوار کیلئے تیل سے چلنے والے بجلی گھر استعمال کرتا ہے۔ ریاض کی جانب سے وہ بجلی گھر چلانے کیلئے اپنا لوکل کروڈ آئل استعمال کرنے کے بجائے سستا روسی تیل استعمال کیا جارہا ہے۔ جبکہ لوکل کروڈ آئل کو مہنگے داموں ایکسپورٹ کردیا جاتا ہے۔
سعودی عرب نے اپریل اور جون کے درمیان ساڑے چھ لاکھ ٹن روسی ایندھن امپورٹ کیا۔
صرف سعودی عرب ہی نہیں ، مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی روسی تیل کی در آمدات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں روسی تیل کی ترسیل میں خاطر خواہ اضافہ ہوچکا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق یورپ ابھی بھی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے ۔ جبکہ یورپی ملک جرمنی چین کے برابر روس سے تیل خرید رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے بھی روسی تیل پر انحصار بتدریج بڑھایا جارہا ہے۔
ادھر کچھ بزرجمہر ہیں جو مسخ شدہ حقائق کو بغیر تحقیق پیش کیے جارہے ہیں۔ جو کچھ میڈیا سیل والے انٹرن غلط ملط بھیجتے ہیں اسے آگے پھیلا دیتے ہیں۔ پراپیگنڈا کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ گوئبلز بھی زندہ ہوتا تو ان حضرات کو بد دعائیں دیتا۔ کم از کم پراپیگنڈا تو ذہانت سے کر لیتے۔a