یورپی اور امریکی خریداروں کی جانب سے روس کے تیل اور تیل کی مصنوعات کی خریداری ترک کئے جانے کے بعداب روسی تیل کی برآمدات کا رخ ایشیا کی جانب مڑ گیا ہے۔
ریئل ٹائم انرجی کارگو ٹریکر، ورٹیکسا کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق یوکرین پر روسی جنگ شروع ہونے کے ایک ماہ بعد، روسی حکومت اور اولیگارچوں پر مغربی اقتصادی پابندیوں نے تیل کی ترسیل پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا۔اب تک کا سب سے اہم اثر روسی بحیرہ اسود اور بحیرہ بالٹک کے خام تیل کی منزلوں میں تبدیلی ہے۔
ورٹیکسا کے اعداد و شمار کے مطابق روس کی یورپ کو برآمدات 1 سے 22 مارچ تک تقریباً 280,000 بیرل یومیہ کم ہو کر 1.3 ملین بیرل یومیہ رہ گئی ہیں۔ ایشیا کو برآمدات جوتاریخی طور پر روسی بالٹک اور بحیرہ اسود کے خام تیل کا باقاعدہ خریدار نہیں ہے ۔ اسی عرصے کے دوران اسکی خریداری میں 220,000 بیرل یومیہ اضافہ ہوا۔چنانچہ اس ماہ روسی تیل کی برآمدات میں ایشیا کا حصہ 25 فیصد تک پہنچ گیا ہے جو اپریل 2020 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
چین اور بھارت ان برآمدات کے دو بڑے خریدار بن گئے ہیں کیونکہ ایشیا کی کل درآمدات میں روسی تیل کی سپلائی کا حصہ محض 5فیصد ہے۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ فروری2022 میں 5.6 ملین بیرل یومیہ روسی سمندری خام تیل اور مصنوعات یا مجموعی طور پر 73 فیصد پیداوار ان ممالک کو برآمد کی گئیں جنہیں ماسکو نے "غیر دوستانہ” سمجھا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ روسی خام تیل کے درآمد کنندگان میں تقریباً پورا یورپ، نیز امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا اور سنگاپور شامل ہیں