حسن زبیر
روس کے سردپانیوں سے برف پگھل رہی ہے ۔ آرکٹک اوقیانوس کا سمندر روس کو کینیڈا تک راستہ دے رہا ہے اور اس کے ساتھ دنیا اسے روس کے لیے معدنیات کے سمندر کا نام بھی دے رہی ہے ۔آرکٹک کے تہہ میں نایاب دھاتوں پر مشتمل دولت کا ایک اور سمندر چھپا ہوا ہے جسے نکالنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی بھی اب روس حاصل کرتا جارہا ہے ۔
آرکٹک اوقیانوس کیا ہے ؟
آرکٹک کا لفظ یونانی زبان کے لفظ آرکٹوس سے نکلا ہے، جس کا مطلب ریچھ ہے۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ یہ علاقہ سفید برفانی ریچھوں کے باعث مشہور ہے۔شمالی نصف کرہ میں واقع اس خطے میں بحر منجمد شمالی ، کینیڈا، گرین لینڈ، روس، امریکا(الاسکا)، آئس لینڈ، ناروے، سویڈن اور فن لینڈ کے چند حصے شامل ہیں۔اس خطے میں موسم گرما ٹھنڈا اور موسم سرما انتہائی سرد ہوتا ہے۔ موسم سرما میں اوسط درجہ حرارت منفی 37 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے اور کم از کم درجہ حرارت منفی 68 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا ہے ۔
روس کا سب سے بڑانیم خودمختار جمہوریہ یاکوتیا آرکٹک دائرے میں پھیلا ہوا ہے ۔ یہ جرمنی ، فرانس ، اٹلی ، سپین ، سویڈن ، فن لینڈ اور رومانیہ کے رقبے جتنا بڑا ہے ۔ شدید سرد موسم کے باعث آرکٹک اوقیانوس برف سے ڈھکا رہتا تھا اور روس سمندری راستہ ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرپاتا تھا ۔ انہی برفیلے پانیوں کی وجہ سے پاکستان میں روس کے گوادر کے گرم پانیوں تک رسائی کی اصطلاح سامنے لائی گئی ۔ جس کے مطابق روس پہلے افغانستان میں قدم جما کر پاکستان کے راستے گرم پانیوں تک جانا چاہتا ہے ۔ 1980 سے یہ اصطلاح دنیا بھر میں استعمال کی جاتی رہی جو افغانستان سے روسی انخلا کے بعد اپنا اثر کھو بیٹھی ۔
آرکٹک کے پانیوں میں کیا کیا چھپا ہے ؟
آرکٹک کے برفیلے پانیوں کے نیچے قیمتی دھاتیں کوبالٹ اور ٹن موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی دھاتیں بھی ہیں جو الیکٹرانکس سے لے کر ہرچیز میں استعمال کی جاسکتی ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان دھاتوں کا استعمال ریچارج ایبل بیٹریوں میں کیا جاسکتا ہے جن کی پوری دنیا میں مانگ دن بدن بڑھتی جارہی ہے ۔ اس کے علاوہ آرکٹک میں تیل اور گیس کے بڑے ذخائر بھی پائے جاتے ہیں ۔امریکی ادارے کے مطابق آرکٹک میں 90 بلین تیل ہے ۔ جو دنیا میں تیل کے ذخائر کا تقریباً 13 فیصد بنتا ہے ۔
آرکٹک نئی تجارتی گزرگاہ بننے کو تیار
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آرکٹک پر بنا برف کا فرش بھی پگھل رہا ہے اور آب وہوا میں تبدیلی آرکٹک کے برف سے بند پانیوں کو کھول رہی ہے ۔ یہ دنیا کے دوردراز علاقوں میں تیزی سے قابل رسائی ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے روس کے نائب وزیرِاعظم دیمیتری روگوزن نے کہا تھا کہ قطب شمالی خطہ روس کو بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل تک لامحدود رسائی فراہم کرتا ہے اس لیے روسی بحریہ کو برف والے پانیوں میں چلنے والے بحری جہازوں کا نیا بیڑا دیا جائے گا۔
آرکٹک میں نئی سرد جنگ ؟
آرکٹک کے اردگردموجود 8 ممالک میں دنیا کی سپرپاور امریکا بھی ہے جبکہ دیگر ممالک میں کینیڈا ، ڈنمارک ، فن لینڈ ، آئس لینڈ ، ناروے اور سویڈن ہیں ۔ دنیا کی دو بڑی طاقتوں سمیت ان ممالک میں آرکٹک کی سمندری ملکیت کے متضاد دعوے سامنے آتے رہتے ہیں ۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو خطے کا سب سے بڑا جزیرہ گرین لینڈ خریدنے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی ۔ یہ خواہش تب زیادہ معنی خیز ہوجاتی ہے جب ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ آرکٹک کا جما ہوا حصہ 2040 یا 2050 تک اپنا راستے کھول دے گا۔ اس صورتحال کو امریکی تھنک ٹینک نئی سرد جنگ کا نام دیتے ہیں جس کے روس اور امریکا دو بڑے کھلاڑی ہیں ۔