تحریر: سلمان احمد لالی
یوکرین پر روس کے حملے سے جہاںدنیا کے بیشر معاملات کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے وہیں ایران جوہری معاہدے کی تجدید کیلئے ویانا میں ہونے والے مذاکرات بھی پٹڑی سے اتر سکتے ہیں کیوں کہ روس کا ان مذاکرات میں یہ مطالبہ کردیا ہے کہ مستقبل کے کسی بھی تجارتی لین دین میں اسے امریکی پابندیوں سے استثنا دیا جائے۔
مذاکراتکار اس امید پر گزشتہ گیارہ ماہ سے بات چیت کر رہے ہیں کہ ایران کےساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے کی تجدید ہو سکے جو سابق امریکی صدر ٹرمپ کے اقدامات کی وجہ سے ناقابل عمل ہو چکا ہے۔ بات چیت اس چیز پر مرتکز ہے کہ امریکہ اور ایران کو دوبارہ JCPOA نامی اس معاہدے کی تعمیل پر واپس لایاجائے اور ایران پر عائد کردہ پابندیا ں ختم ہوں۔
لیکن یوکرین میں جنگ چھڑنے کے بعد روس کے JCPOA کے دیگر فریقین کے ساتھ تعلقات پیچیدہ حد تک خراب ہو چکے ہیں۔
پیر کے روز ایرانی وزیر خارجہ کےساتھ بات چیت کرتے ہوئے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ روس چاہتا ہے کہ جوہری معاہدے کی بحالی کہ بعد امریکہ ضمانت دے کہ روس پر موجودہ پابندیوں کا اطلاق ایران کے ساتھ تجارتی لین دین پر نہیں ہوگا یعنی یوکرین میں روسی اقدامات کے جواب میں امریکی پابندیوں سے روس ایران تجارتی لین دین مستثنیٰ ہو۔روس کی جانب سے اس مطالبہ نے تہران سے لے کر واشنگٹن تک سب کو ہلا کہ رکھ دیا اور JCPOA کے مستقبل پر سوال اٹھا دیے۔
روس کی جانب سے یہ پوزیشن لینے کا مطلب ہے کہ ماسکوکے ویانا مذاکرات میں موقف میں تبدیلی آئی ہے جو مذاکرات کو ناکامی سے دوچار کرسکتا ہے۔ ایرانی حکام بھی اس مطالبے پر دنگ رہ گئے۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ نے بھی اشارتا کہا ہے کہ امریکہ جوہری معاہدے کی خاطر روس کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہےاور اس سارے معاملے کا روس پر حال میں لگائی گئی پابندیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ویانا میں جاری مذاکرات کے اس مرحلے پر ایران امیریکہ سے زیادہ سے زیادہ رعایتیں حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جن میں ایرانی اداروں اور شخصیات کا نامزد ہشتگردوں کی امریکی فہرست سے نکالنا بھی شامل ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہےکہ اس مرحلے پر روس کا بدلتا ہو ا موقف مذاکرات کو بے نتیجہ ختم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔انکے خیال میں روس JCPOA پر جاری مذاکرات کو یوکرین سے متعلق پابندیوں پر مغرب سے مراعات حاصل کرنے کیلئے سودے بازی کےطور پر استعمال کر سکتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں شاید روس یہ سوچ رہا ہےکہ JCPOA کی بحالی سے مغربی ممالک کو فائدہ ہوگا کیوں کہ ایرانی تیل کی بین الاقوامی منڈیوں میں فروخت سے تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کو روکنے میں مدد ملے گی۔ اور تیل کا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا پیداواری ملک روس تیل کی قیمتوں میں کمی نہیں چاہتا۔
گزشتہ روز امریکہ کی جانب سے روسی تیل پر پابندیوں کے عندیے سے روس کیلئے یہ خطرہ لاحق ہوگیا ہےکہ اس کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہوجائے ایسے میں روس کے پاس ایران کے جوہری معاہدے کی تجدید میں دلچسپی لینے کیلئے بہت کم جواز ہے۔
لیکن کیا JCPOA روس کے بغیر ممکن ہے؟ گوکہ یہ ممکن ہے لیکن اس میں دو قباحتیں ہیں، ایک تو 2015میں طے پانے والے معاہدےمیں روس کو یہ اہم کردار سونپا گیا کہ ایران کے افزودہ یورینیم کو روس ہی محفوظ طریقے سے اپنے ملک میں ذخیرہ کرے گا ۔ دوسری قباحت یہ ہے کہ اصل معاہدے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی حمایت حاصل ہے ، جسے روس اب بھی ویٹو کر سکتا ہے۔
ایسے میں یہ معاہدہ ایک طویل عرصے کیلئے لٹکنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔