طالبان ، کشمیر اور نیٹو ہتھیار

آن لائن (پاک ترک نیوز)
افغانستان میں چھوڑے گئے نیٹو ہتھیار کس طرح کشمیر کی عسکریت پسندی کو متاثر کر ہےہیں؟ یہ سوال آجکل مغربی میڈیا پر شدت سے دہرایا جارہا ہے۔ بھارتی حکام کے دعووں کے مطابق افغانستان نیٹو کے زیر استعمال اسلحہ اور بم مقبوضہ کشمیر میں داخل ہورہےہیں جس سے علاقے میں آزادی پسندوں کی عسکری جدو جہد کو تقویت ملنے کا امکان ہے۔
بھارتی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے اس معاملے پر تحقیقات کررہی ہے کہ آیا جمعہ کو ہندو زائرین کو لے جانے والی بس کو نشانہ بنانے کیلئے سٹکی بم کا استعمال تو نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے 4افراد ہلاک اور 24زخمی ہوئے۔
حیران کن بات ہے کہ اس حملےکی ذمہ داری جموں کمشیر فریڈفائٹرز نامی ایک غیر معروف تنظیم نے قبول کیا۔ انکے بیان کے مطابق بس کو چپکنے والے دیسی ساختہ بم سے نشانہ بنایا گیا۔
گزشتہ برس سے ہی ایسی چپکنے والے بموںکے استعمال کا رجحان مقبوضہ وادی میں دیکھنے میں آیا ہے۔
یہ بم افغانستان میں نیٹو فورسز کے خلاف بھی استعمال کیے جاتے رہے۔بھارتی سکیورٹی حکام کا کہنا ہےکہ وادی میں ان بموں کی موجودگی کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔
بھارتی حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا ہےکہ انہیں ایسے ہتھیار ملے ہیں جن پر امریکی مہریں لگی ہوئی ہیں۔
انکی جانب سے مختلف سازشی مفروضے پیش کیے جارہےہیں جن میں کہا جارہا ہے کہ افغانستان کی شمالی سرحد کیوں کہ مقبوضہ کشمیر سے قریب ہے اسلیے افغان عسکریت پسندوں کا وہاں داخل ہونا آسان ہے۔
کشمیر میں نیٹو کے ہتھیار
گزشتہ سال جنگ زدہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد، ہندوستانی فوج نے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف حصوں میں مارے گئے کئی غیر ملکی عسکریت پسندوں سے امریکی ساختہ M4 کاربائن رائفلیں پکڑیں۔
ایسی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئیں جن میں کچھ عسکریت پسندوں کو خودکار رائفلیں، 509 ٹیکٹیکل بندوقیں، M1911 پستول اور M4 کاربائن رائفلیں اٹھائے دکھایا گیا ہے۔
اسکے علاوہ امریکی افواج کے زیر استعمال اریڈیم سیٹلائٹ فونز اور وائی فائی سے چلنے والے تھرمل امیجری ڈیوائسز بھی عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگی ہیں۔
رواں برس فروری میں بھارتی فوج کے میجر جنرل اجے چاند پوریا نے دعویٰ کیا کہ جدید امریکی ہتھیار افغانستان سے کشمیر میں داخل ہورہےہیں۔انکےمطابق بر آمد ہونے والے آلات میں نائٹ ویژن ڈیوائسز کے علاوہ دیگر جدید گیجٹس کی بھرمار ہے۔

افغانستان اور کشمیر تنازع کا تعلق
1989 میں سوویت یونین کے افغانستان سے انخلاء کے بعد کشمیر میں افغان جنگجوؤں کی آمد کا مشاہدہ کیاگیا اور انہی واقعات کو بنیاد بنا کر ایک بار پھر بیانیہ بنایا جارہا ہے کہ کشمیر میں افغانستان سے عسکریت پسند اور اسلحہ داخل ہو رہا ہے جس کا مقصد اسکے سوا کچھ نہیں کہ اسکا الزام پاکستان کے سر دھر سکیں۔اب حکام نے یہ بھی دعویٰ کر مارا ہےکہ کشمیرمیں سرگرم مجاہدین آزادی میں 50فیصد غیر ملکی ہیں حالانکہ منطقی طورپر ایسا ناممکن ہے اور حریت پسندوں نے ان دعووں کی بارہا تردید بھی کی ہے۔

کشمیر میں عسکریت پسندی کی بدلتی حرکیات
کشمیر میں عسکریت پسندوں کے حملے پہلے سے ہی بڑھ رہے ہیں، جس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو کشمیر میں نوجوان نسل میں بھی جذبہ حریت اسی طرح سے موجود ہےجیسا کہ پچھلی نسل کے حریت پسندوں میں تھا۔وادی کی خودمختاری کو ختم کرنے کے بعد حالات میں بتدریج خرابی پیدا ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں موجودہ تحریک آزادی کو بدنام کرنے کیلئے بھارتی حکام نے ماضی کی طرح ایسی حرکات کا سہارا لینا شروع کیا ہے جس سے موجودہ تحریک کو بدنام کیا جاسکے۔ اس معاملے میں یہ بہت ماہر ہیں۔ انکے اسرائیلی استادوں نے بھی انہیں یہ سبق پڑھایا ہےکہ جیسےپولیٹیکل اسلام کو بدنام کرنےکیلئے القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں انہوں نے امریکیوں کے ساتھ مل کر کھڑی کیں اور تحریک آزادی فلسطین کو بدنام کرنے کیلئے ایسی عسکریت پسند تنظیمیں شروع کی گئیں جن کی وجہ سے فلسطینیوں کیلئے عالمی حمایت میں کمی آئی ۔ ایسے ہی بھارت کشمیرکی جدو جہد آزادی کے ساتھ کر رہا ہے۔
پاکستان پر الزام
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام آتے ہی بھارت کیجانب سے ایسے بیانات سامنے آئے ہیں جن سے خدشہ پیدا ہورہا ہے کہ بھارت کوئی ایڈوینچر کرنے جارہا ہے۔ جس کے لیے حالات سازگار کیے جارہے ہیں۔ فالس فلیگ آپریشن کروا کر اپنے ہی فوجیوں کو اور عوام کو مروانابھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کیلئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس سے پہلے پلوامہ حملے کے نام پر اپنے ہی فوجی مار کر اور پاکستان پر جھوٹی سرجیکل سٹرائیک کے ذریعے مودی کو انتخابات جتوائے گئے۔ لیکن اس بار کچھ بڑا ہی ہونے جارہا ہے۔