اوسلو(پاک ترک نیوز) اوسلو میں طالبان کے مغربی حکام اور دیگر مندبین ساتھ تین روزہ مذاکرات دنیا بھر کی توجہ کا مرکز ہیں جنہیں طالبان کی جانب سے حوصلہ افزا قرار دیا جارہا ہے۔ جبکہ مغربی مذاکرات کاروں نے افغانستان میں انسانی حقوق کی بہتری کو امداد کی فراہمی کے ساتھ جوڑا ہے۔
طالبان وفد کی قیادت قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کی جنہوں ے بات چیت کو مثبت قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت اچھا دورہ تھا ، اس طرح کے دورے ہمیں دنیا کے قریب لائیں گے۔
متقی نے کہ طالبان حکومت افغانستان میںمعاشی مسائل کے حل کیلئے امداد کے حصول کی پوری کوشش کرے گی۔
گزشتہ ہفتے طالبان نے کہا کہ مارچ کے آخر میں لڑکیوں کے سکول کھول دیے جائیں گے،جوکہ مغربی ممالک کی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے جس پر عمدرآمد کیے بغیر امداد کی فراہمی ممکن نہیں ہوگی۔
افغانستان کے معاشی مسائل، انسانی المیہ اور منجمد اثاثے
طالبان چاہتے ہیں کہ دنیا انکی حکومت کو تسلیم کرے اور افغانستان کے امریکہ اور دیگر ممالک میں منجمد اثاثہ جات تک انکو رسائی دی جائے جس سے ملک کو معاشی طور پر سہارا مل سکے۔ یاد رہے کہ شدید خشک سالی کی وجہ سے افغانستان میں لاکھو ں افراد شدید مشکلات کا شکار ہیں۔لیکن منجمد اثاثہ جات کو جاری کرنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکا۔
بیشتر مسائل کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جانب سے کچھ لیکویڈیٹی (کیش)فراہم کرنے کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ اس سے حکومت بجلی سمیت اہم برآمدات کی ادائیگی کر سکے۔
اوسلو مذاکرات پر تنقید
بہت سے افغانیوں کی جانب سے سے طالبان کے ساتھ مغربی ممالک کے مذاکرات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ لیکن مغربی ممالک کیلئے افغانستان چھوڑنے کے بعد وہاں کے عوام کی حالت زار کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں، اس وقت افغانستان میں 10لاکھ بچے بھوک کا شکار ہیں اور انکی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
کیوں کہ مغربی ممالک کی جانب سے امداد معطل کرنے سے انہیں شہریوں کو نقصان پہنچے گا جن کے دفاع کا بہانہ کرتے ہوئے نیٹو ممالک نے سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کیے۔
اقوام متحدہ کے مطابق تقریبا 55فیصد افغان آبادی غذائی قلت کا شکار ہے اور ملک میں کسی بڑی انسانی المیہ سے بچنے کیلئے چار ارب ڈالر سے زائد کے فنڈز طلب کیے گئے ہیں۔