.تحریر :سلمان احمد لالی
ترک صدر رجب طیب اردوا ن نے ٹی وی پر اپنے بیان میں کہا ہےکہ عثمان کاوالا ترکی کا جارج سوروس ہے .عثمان کاوالا پر غازی پارک فسادات میں اہم کردار ادا کرنے کا الزام ہے۔
کاوالا کے خلاف مقامی عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ 2013میں غازی پارک تنازعے پر محدود مظاہرے ملک گیر احتجاج اور فسادات ک شکل اختیار کرگئے۔ فروری 2020میں عثمان کاوالا کو ایک مقامی عدالت نے تمام الزامات سے بری کردیا تھا تاہم اپیل کورٹ نے کاوالا کے خلاف فیصلہ دیا۔
عثمان کاوالا پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ فتح اللہ گلن کے دہشتگرد نیٹ ورک سے بھی منسلک ہیں اورانہو ں نے 2016کی ناکام بغاوت میں بھی کردار اداکیا۔
حالیہ فیصلہ عثمان کاوالا کے غازی پارک فسادات کیلئے مالی امداد فراہم کرنے کے شواہد موصول ہونے پر آیا ہے۔
عثمان کاوالا کون ہے؟
عثمان کاوالا تمباکو کا کاروبار کرنے والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کے آباو اجداد یونان سے ترکی منتقل ہوئے۔ عثمان نے 1982میں اپنے والد کی وفات پر خاندانی کاروبار سنبھالا اور مختلف سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ انہو ںنے بے پناہ خاندانی دولت سے نہ صرف بہت سی این جی اوز کی بنیاد ڈالی بلکہ کئی اخبارات اور جرائد بھی شروع کیے۔ وہ انتہائی متنازع اوپن سوسائٹی فاونڈیشن ترکی کے بھی بانی ہیں جو کہ جارج سوروس کی اسی نام سے عالمی تنظیم کی ذیلی شاخ ہے۔
عثمان کاوالا کی طاقت کا اندازہ اس بات پر لگایا جاسکتا ہے کہ انکی گرفتاری کے خلاف دنیا بھر سے آواز اٹھائی گئی اور تمام سول رائٹس کی تنظیموں نے انکے خلاف کیسوں کی مذمت کی۔ اور تو اور انکے حق میں یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے فیصلہ ہی دے ڈالا۔ ہیومن رائٹس واچ سے لے کر کونسل آف یورپ ، بین الاقوامی کمیشن برائے جیورسٹس نے بھی انکے حق میں آواز اٹھائی۔
اسکے علاوہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے نام نہاد دعویداروں اور ٹھیکہ دارو ں جن میں امریکہ ، جرمنی، فرانس سمیت کئی مغربی ممالک شامل ہیں نے بھی بہت شور مچایا۔
گوکہ ترکی سمیت کسی بھی ملک کے استغاثہ اور نظام عدل پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے اور بلاشبہ بہت سے افراد یک طرفہ کاروائیوں کا نشانہ بنتے ہیں لیکن عثمان کاوالا کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کی شدت نے انکے کردار کو مزید مشکوک بنادیا۔ ایک کاروباری شخص جو دنیا کی منتازع ترین تنظیم کے ترک شاخ کا بانی ہے جس نے غازی پارک نتازعہ میں ریاست کی کھلم کھلا مخالفت کی اسکو حاصل مغربی حمایت کے کیا معنی ہیں۔ ایسی دنیا میں جہاں کشمیر اور فلسطین مغربی دنیا کی منافقت اور بے حسی کا استعارہ ہیں۔ انسانی حقوق کے نام نہاد چیمیئن امریکہ اور یورپ کا مسلمان اور غیر مسلم تارکین وطن کے حوالے سے جو منافقانہ طرز عمل سامنے آیا ہے اسکے بعد انکی جانب سے یہ دعوے ڈھٹائی اور بے شرمی کے سوال کچھ نہیںہیں۔ حالانکہ زیادہ تر مسلمان تارکین وطن انہیں ممالک کی لیبیا، شام ، عراق اور افغانستان جیسے ممالک کو تباہی کے دہانے پر لانے کے نتیجہ میں بے گھر اور بے یارومدد گار دربدر ہیں۔
جارج سوروس کون ہے؟
جارج سوروس دنیا کے منتازعہ ترین ارب پتی شخصیات میں شامل ہیں جن پر مختلف ممالک میں سیاسی مداخلت، پسند کے گروہوں کی امداد ، سوویت یونین توڑنے میں مشرقی یورپ میں کردار ادا کرنے اور برطانوی مالیاتی نظام پر سب سے بڑی نقب لگانے کے الزامات ہیں۔ وہ ہنگری سے تعلق رکھنے والے یہودی ہیں جنہوں نے مذہب بیزاری ، مادر پدر آزادی جیسے نظریات کی ترویج کیلئے اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ سوروس امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اور موجودہ صدر کے ذریعے ان نظریات کے معاشرے پر اطلاق کے حوالے سے بھی تنقید کا نشانہ بنائے گئے ہیں۔
جارج سوروس دنیا کے انتہائی اثرو رسوخ رکھنے والی شخصیت کے طورپرپہچانے جاتے ہیں اور انکی طاقت کا منبع بے پناہ دولت اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گہرے روابط اور تعلقات ہیں۔ عثمان کاوالا کا انکے ساتھ تعلق اور ترکی میں صدر اردوان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی متعدد کوششوں میں انکا نام آنا ہر کسی کے کان کھڑے کردیتا ہے۔ یاد رہے کہ ایس400کی خریداری کی وجہ سے ترکی اور امریکہ میں اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن صدر ٹرمپ کے دور میں اردوان اور امریکی صدر کے درمیان بہتر تعلقات تھے لیکن موجودہ صدر بائیڈن انتخابات جیتنے سے پہلے ہی ان خیالات کا اظہار کرچکےہیں کہ کس طرح اردوان کو ہٹانے کیلئے اپوزیشن کو مضبوط کرنے کے منصوبے اور انکے اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ذہنوں میں پک رہا ہے۔
یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ ترکی، جس نے کورونا وائر س کی وبا کے بعد یورپی ممالک میں سب سے زیادہ معاشی نمو اور ترقی حاصل کی ہے میں مسلسل کرنسی بحران موجود ہے۔ حالانکہ معیشت کے مستحکم اور درست سمت میں گامزن ہونے کے تمام اسباب اس وقت موجود ہیں اور اس معاشی ترقی میں اردوان کی شرح سود کو کم رکھنے کی پالیسی نے اہم کردار اداکیا ہے لیکن اسکے باوجود کرنسی مارکیٹ میں مصنوعی طور پر عدم استحکام کے ذریعے ترک قوم کے مستقبل پر ڈاکہ ڈالا جارہاہے۔ مختلف ممالک میں سیاسی عدم استحکام کا یہ فارمولہ بہت پرانا بھی ہے اور آزمودہ بھی کہ معاشی حالات ایسے کردیے جائیں کہ عوام میں بے چینی میں اضافہ ہو اور اسے حکومت کے خلاف کھڑا کردیا جائے۔ یہی وجہ ہےکہ صدر اردوان نے حکمت کے ساتھ کام لیتےہوئے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بتدریج بہتری لانے اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بحالی کیلئے کام کرنا شروع کیا۔ جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن 2023کے معاشی و سماجی اہداف کے حصول کیلئے اردوان کی کوششوں میں کمی آنے کے بجائے تیزی آئی ہے۔ میں آج بھی اپنی اس پیشین گوئی پر قائم ہوں کہ 2050سے پہلے ہی ترکی موجودہ راہ پر چلتےہوئے دنیا کی اہم ترین طاقت بن جائے گا۔ دفاعی پروڈکشن، آئی ٹی، میٹاورس، گیمز سمیت نئے شعبوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کیلئے بہت سے اقدامات کیے جارہےہیں اور ایسے وقت میں محب وطن ترک ماہرین نے دنیا میں چپس کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ترکی میں اسکے پیداوار کے حوالےسے بھی مشورہ دیا ہے۔ ایسے میں اگر کسی چیز کی اشد ضرورت ہے تووہ ہے عوام میں اتحاد۔ اردوان ترک قوم سے کچھ نہیں مانگتے۔ انکا ایک ہی مطالبہ ہے کہ صبر کے ساتھ موجودہ حالات کا سامنا کیا جائےاور قومی اتحاد پر کسی صورت سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ اگر یہ قوم 2023تک متحد رہی اور انتخابات میں رجب طیب اردوان پر اعتماد کیا توکوئی شک نہیں کہ ترکی ترقی اور عظمت کی بلندیوں تک پہنچے اور اسکے ذریعے اسلامی دنیا بھی اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے۔