قومی سلامتی کو نسل کا اجلاس اب کیوں؟

 

 

تحریر: سلمان احمد لالی۔

وزیر اعظم کی جانب سے قومی سلامتی کونسل کااجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ این ایس سی جو کہ سلامتی امور پر کوارڈنیشن اور مشاورت کا اعلیٰ فورم ہے جس میں اہم وفاقی وزرا،قومی سلامتی کے مشیر، سروسز چیف اور انٹیلی جنس حکام شامل ہیں۔ اسکے علاوہ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا بھی اجلاس طلب کرلیا گیا ہے جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی قیادت مدعو کی گئی ہے۔
اسکے علاوہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ دھمکی آمیز خط اور اسکے مندرجات کو پارلیمنٹ کے ان کیمرا مشترکہ اجلاس میں بھی پیش کیا جائے گا۔ جبکہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ضابطے کے مطابق بحث کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس بھی آج ہی منعقد ہورہا ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم سے اعلیٰ عسکری و انٹیلی جنس قیادت کےبعد ملک بھر سیاسی صورتحال کو لے کر افواہوں کا بازار گرم ہے اور مختلف قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف حکومت کی سابقہ اتحادی جماعت ایم کیو ایم کی اپوزیشن کی حمایت کے بعد قومی اسمبلی میں وزیر اعظم اکثریت کھو چکے ہیں اور پی ٹی آئی کے مزید منحرف اراکین کی مزید سندھ ہاوس میں آمد کاسلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
ایسے میں وزیر اعظم کی عسکری قیادت کےساتھ ملاقاتوں کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کااجلاس طلب کیا جاتا بہت معنی خیز ہے جس میں دھمکی آمیز خط ایجنڈے میں سر فہرست ہے۔ اسکے علاوہ ملکی سیاسی صورتحال کوبھی زیر غور لائے جانے کا امکان ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس خط کو سامنے لائے جانے کےبعد سے اپوزیشن اور میڈیا پر مختلف حلقوں کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ اگر ایسا کوئی خط ہے تو اسے مختلف فورمز پر لایا جائے تاکہ اس حوالے سے اپوزیشن اور عسکری قیادت اپنا لائحہ عمل بنا سکے۔

جہاں تک خط کی بات ہے تو اسکے کچھ مندرجات سامنے لائے جاچکے ہیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کوئی غیر ملکی طاقت موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسیوں سے ناخوش ہے اور پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات میں بہتری کو عدم اعتماد کی تحریک میں کامیابی سے سے مشروط کر رہی ہے۔
اسی بنیاد پر عمران خان نے الزام عائد کیا کہ انکی حکومت کو ہٹانے کیلئے غیر ملکی فنڈنگ کی جارہی ہے اور اپوزیشن قیادت مبینہ طور پر غیر ملکی آلہ کار کا کردار ادا کر رہی ہے۔
گوکہ حکومت کی جانب سے کہا گیا ہےکہ اس خط کے مندرجات سے اعلیٰ فوجی قیادت آگاہ ہے لیکن قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس بلانےکے بعد تمام سروسز چیفس کو باضابطہ طور پر اس خط سے آگاہ کیا جائے گا اور اس حوالے سے موقف اپنایا جائےگا۔ اس سے عسکری قیادت کو یہ تاثر دینے میں بھی مدد ملے گی کہ حکومت کے ساتھ سیاسی معاملات پر اسکا کوئی غیر رسمی یا غیر سرکاری سطح پر رابطہ یا کوارڈنیشن نہیں ہے اور سرکاری سطح پر اس فورم کےذریعے ہی مختلف امور پر بات چیت کی جائے گی اور ملک کی سیاست میں غیر جانبداری کی پالیسی جاری رکھی جائے گی۔
افواہیںاور قیاس آرائیاں:
اب بات کرتے ہیں ملک میں جاری قیاس آرائیوں اور افواہوں کی جو وزیر اعظم کی گزشتہ روز عسکری قیادت سے متعدد ملاقاتوںکے بعد زور پکڑ گئی ہیں ۔ کہا جارہا ہے کہ شاید اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے گی اور وزیر اعظم قبل از وقت انتخابات کا اعلان کریں گے ۔ بظاہر یہ ہی صورتحال ہے جس سے موجودہ سیاسی بحران کا حل نکل سکتا ہے۔بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم چند ماہ مزید اپنے عہدے پر قائم رہنا چاہتے ہیں جس کےدوران وہ کچھ ایسےمعاشی اقدامات کرنا چاہتے ہیںجس نے شرح نمو میں اضافہ ہو اور عوام کو بھی ریلیف مل سکے لیکن ایم کیو ایم کے پیپلز پارٹی کے ساتھ تحریری معاہدے کے بعد حکومت اپنی اکثریت کھو چکی ہے اور وزیر اعظم کو فوری طور پر انتخابات کروانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
اگر عالمی سطح پر بات کی جائے تو پاکستان کو ایف اے ٹی ایف ، آئی ایم ایف سمیت کئی چیلنجر درپیش ہیں اور موجودہ سیاسی صورتحال میں عمران خان کی حکومت کی جانب سے عائد کردہ غیر ملکی سازش کے الزامات سے پاکستان کو سفارتی سطح پر کئی مشکلات درپیش ہیں۔ ایف اے ٹی ایف میں ملک کو بلیک لسٹ ہونے سے بچانا، آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات اوراسکی جانب سے قرض کے عوض بقایا اقساط کے اجرا اور دیگر معاشی مسائل بھی عمران خان کی حکومت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس ہائبرڈ رجیم کی ساڑھے تین سال حمایت کے بعد غیر جانبداری کا عمومی طور پر غیر مقبول فیصلہ کیا گیا ہے جسے عمران خان حامیوں کی جانب سے بہت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لیکن اپوزیشن کے حامیوں اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے حامی افراد اداروں کی غیر جانبداری کو سراہ رہے ہیں۔

موجودہ صورتحال میں جہاں پاکستان کے اندرونی معاملات میں بیرونی طاقتوں کی جانب سے اثر انداز ہونے پر بحث کی جارہی ہے وہیں یہ بات بھی عیاں ہو چکی ہے کہ عمران خا ن کی موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے غیر فطری طور پر قائم کی گئی جس کے غیر جانبداری کی پالیسی اپنانے کے بعد regime کے بکھرنے کا عمل جاری ہے۔

اس حوالے سے عمران خان جو عمومی طور ایماندار اور شفاف سیاستدان کی شہرت کے حامل ہیں ، کی کئی سیاسی غلطیوں کو بھی سپاٹ لائٹ میں لایا جارہا ہے جن میں دیرینہ کارکنان کو چھوڑ کر electablesکو ٹکٹ دینا۔ اپنے بیانات سے انحراف، بری گورننس اور ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے وعدوں کی تکمیل میں ناکامی ہے۔

@imrankhan#no_confidence_move#PakTurkNews#political_situationPakistan