سلمان احمد لالی(پاک ترک نیوز)
بھارت کی سب سے دولت مند ریاست کے وزیر اعلیٰ اور شیو سینا کہ سابق سپریمو بالا صاحب ٹھاکرے کے صاحبزادے ادھو ٹھاکرےنے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ یہ فیصلہ ان کی جماعت شیو سینا کی پارلیمانی جماعت میں 35ارکان اسمبلی کی بغاوت کے بعد سامنے آیا جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ادھوٹھاکرے اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کریں۔ اسکے بعد نریندامودی کی جماعت بی جے پی کے ریاست میں دوبارہ حکومت بنانے کی راہ ہموارہوگئی ہے۔
مہاراشڑ ممبئی اور پونے جیسے شہروں کی وجہ سے بھارتی معیشت کا دارلخلافہ سمجھا جاتا ہے۔
شیوسینا میں بغاوت جماعت کے ایک اور سرکردہ رہنما ایکانت شندے کی قیادت میں کامیاب ہوئی اور تمام باغی ارکان اسمبلی نے بی جے پی کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔شیوسینا اس بغاوت کو دبانےا ور اسمبلی میں فلور ٹیسٹ میں تاخیر کی کوشش کر رہی تھی جس کے بعد اپوزیشن نے سپریم کورٹ سے رابطہ کیا۔
شیوسینا اتحاد کا انجام:
ادھو ٹھاکرے نے مہاراشٹرمیں اپنے غیر روایتی اتحادیوں کانگریس اورشرد پوار جیسے لیجنڈری سیاست دان کی جماعت نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے ساتھ مل کر 2019میں حکومت قائم کی اور اپنے روایتی حلیف بی جے پی پر وعدہ خلافی کا الزام عائد کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کر لی۔
2019میں بھی بی جے پی نے ہار س ٹریڈنگ کی کوشش کی جس کے نتیجے میں شر دپوار کے بھتیجے اجیت پوارکی قیادت میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے کئی رہنماوں نے بغاوت کی لیکن اس بغاوت کو ناکام بنانے میں شرد پوار کی بیٹی سپریا سولے نے اہم کردا ر ادا کیا۔ اور اجیت پوار سمیت تمام باغی ارکان واپس لائے گئے۔
رواں ماہ کے شروع میں شیوسینا کے 55ارکان اسمبلی میں سے 39ارکان نے ایکانٹ شندے کی قیادت میں بغاوت کا اعلان کیا اور تمام افراد ریاست گجرات کے شہر سورت منتقل ہوئے جبکہ بعد میں مشرقی ریاست آسام کے ایک ہوٹل میں منتقل ہوگئے۔ یاد رہے کہ گجرات اور آسام میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔
اس دوران مہاراشٹر کے سابق وزیرا علیٰ اور بے جی پی کے لیڈر دیوندر فدناویس نے ریاست کے گورنر سے ملاقات کرکے فلور ٹیسٹ کی درخواست کی۔
2019کا سیاسی بحران:
2019میں شیو سینا اور بی جے پی کے درمیان تعلقات میں اس وقت دراڑ آئی جب بی جے پی نے
2019کے اسمبلی الیکشنز میں شیوسینا اور بی جے پی آسانی سے حکومت بنا سکتی تھیں تاہم شیو سینا نے مطالبہ کیا کہ انکووعدے کے مطابق حکومت میں برابر کا حصہ دیا جائے اور 2.5سال کیلئے وزارت اعلیٰ کا عہدہ بھی دیا جائے۔
لیکن بی جے پی نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا ۔ جبکہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے اجیت پوارسے بغاوت کروا کر حکومت قائم کرلی جس میں دویندر فدناویس وزیر اعلیٰ اور اجیت پوارنائب وزیر اعلیٰ بنے۔
ایسے میں اپوزیشن سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا کہ وزیر اعلیٰ کو حکم دیا جائے کہ وہ اپنی اکثریت ثابت کرسکیں جس کے بعد دویندر فدناویس اور اجیت پوار نے اپنے عہدوں سےاستعفیٰ دے دیا۔ شرد پوار اور اجیت پوار کے درمیان صلح ہوگئی اور شیو سینا نے کانگریس اور شرد پوار کی جماعت کے ساتھ مل کر حکومت قائم کی اور تاریخ میں پہلی بار ٹھاکرے خاندان سے کسی نے مہاراشٹر کی وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔
لیکن حکومت بنانےکے تین سال کے بعد باغی فریق نے الزام عائد کیا کہ شیو سینا نے اپنے دائیں بازو اور ہندوتوا کے نظریات سے ہٹ کر کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس سے اتحاد کیا جو انکی نظریاتی اساس کے خلاف ہے۔
اس واقعے کے بعد بی جے پی کی ریاست میں حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی ہے لیکن ایک رکاوٹ ابھی بھی موجود ہے، اور وہ ہے بھارت کا انسداد انحراف قانون جس کے تحت شندے اور انکے حماتی ارکان نااہل ہو سکتے ہیں۔جس سے بچنے کیلئے انہیں کم از کم 37ارکان اسمبلی کی حمایت ثابت کر نا ضروری ہے۔ کم کی صورت میں ان پر یہ قانون لاگو ہوگا اور وہ نا اہل ہو جائیں گے ۔یہ ہی وجہ ہےکہ باغی ارکان کو پہلے سورت اور پھر آسام منتقل کیا گیا تاکہ شیو سینا ان ارکان کو توڑ نہ لے یا اغوا نہ کرلے۔ اسلئے یہ بحران اپنے منطقی انجام پر پہنچتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسکے علاوہ ادھو ٹھاکرے کیلئے بھی بڑا امتحان ہے کہ وہ اپنی جماعت پر مکمل گرفت رکھ پاتے ہیں یا نہیں۔ اسلئے آنے والے دو سال کے دوران بھارت کی سب سے امیر ریاست اور ممبئی جیسے فنانشل کیپیٹل میں سیاسی درجہ حرارت بلند رہنے کی توقع ہے۔