تحریر :سہیل شہریار
ترکی کے روحانی دارالحکومت قونیہ میں مولانا جلال الدین رومی کے 748 ویں عرس کی تقریبا ت جاری ہیں ۔ مرکزی تقریب 17 دسمبر کو ہوتی ہے جب دنیا بھر سے زائرین اور سیاح قونیہ پہنچ جاتے ہیں اور شہر میں تل دھرنے کی جگہ نہیں رہتی ۔
قونیہ میں ہمارا بھی جانا ہوا ،آپ کو میں قونیہ میں مولانا رومی کے مزار کے اندر لیے چلتا ہوں ۔ ہمارے سامنے حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ کے مرید اور علامہ اقبال کے مرشد مولانا جلال الدین رومی کامزار ہے ۔ حضرت مولانا 30 دسمبر 1207 عیسوی کو انطالیہ میں پیدا ہوئے لیکن اپنی زندگی کا بیشتر حصہ قونیہ میں گزارا ۔ تب قونیہ ، سلجوک سلطنت کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا ۔
مولانا جلال الدین رومی کے مزار میں داخلے کے لیے مختلف دروازے ہیں ۔ ہم میدان گیٹ سے داخل ہورہے ہیں ۔ اندر داخل ہوتے ہی سامنے مختلف قبریں نظر آرہی ہیں ۔ اس وقت ہم مولانا رومی کے مزار کے باہر احاطے میں ہیں ۔ جس کے چاروں طرف رہائشی کمرے ہیں ۔ انہیں پاک وہند کی زبان میں حجرے کہا جائے تو مناسب رہے گا ۔ ان حجروں میں بہت سے بزرگوں نے قیام کیا۔ چلے کاٹے ، مراقبے کیے اور معرفت کے دریا پارکرتے ہوئے عرفان کا سمندر حاصل کرتے رہے ۔ احاطے کے بیچ وبیچ ایک سلجوق دور کا پانی کا کنواں ہے ۔ تب یہاں مولانا رومی آنے والوں کی روحانی پیاس بجھاتے تھے اور یہ کنواں ان کی جسمانی پیاس ختم کرتا تھا۔ اب بھی یہ کنواں پانی پلانے کی ذمہ داری نبھارہا ہے ۔
مزار کے داخلی دروازے کے اوپر بڑا سا "یا حضرت مولانا” لکھا ہے ۔وجہ یہ ہے کہ ترک احتراماًمولانا رومی کا نام نہیں لیتے اور گفتگو میں ذکرآئے تو "یاحضرت مولانا” ہی کہتے ہیں ۔ دروازے کے اندر داخل ہوئے تو خود کو پہلے ایک چھوٹے کمرے میں پایا جہاں دیواروں پر قرآنی آیات کی خطاطی کے خوب صورت نمونے آویزاں ہیں ۔فریم میں لگی ہرآیت اس ماحول میں اپنا الگ اثر رکھتی ہے ۔آگے طویل ہال میں حضرت شمس تبریز اور مولانا رومی کی آخری آرام گاہیں ہیں ۔
مولانا رومی کے مزار پر آنے والوں میں زیارت کرنےوالے بھی ہیں اور سیاحت کرنے والے بھی ۔ زائرین فاتحہ پڑھتے ہیں اور سیاح ان لمحات کو محفوظ بنانے میں مگن رہتے ہیں ۔ مجھے بھی یہ دونوں منظر دیکھنے کو مل رہے ہیں اور اب آنکھوں کے سامنے عظیم صوفی بزرگ ،شاعر،فلسفی، محقق ، عالم دین اور دنیا کو مثنوی معنوی جیسا شاہکار دینے والے مولانا جلال الدین رومی کی آخری آرام گاہ ہے ۔
مولانا رومی کے مزار پر جائیں تو ایک دن ناکافی لگتا ہے ۔ چلیں اس ایریا میں چہل قدمی کرتے ہیں ۔ میرے سامنے بارھویں صدی کی یہ قدیم عمارت ہے۔ اس کے دروازے کے اوپر تختی پر لکھا ہے ۔ "سلطان شمس تبریز”۔یہاں مولانا رومی کے مرشد ، حضرت شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ کا قیام رہا ۔اب ہم مزارکے عجائب گھر کا رخ کرتے ہیں ۔ یہاںچودھویں اور پندرھویں صدی کے عثمانی دور کے قرآن مجید کے نسخے رکھے ہیں ۔ فارسی کے مشہور ایرانی شاعر حافظ شیرازی کا ” دیوان حافظ "بھی موجود ہے۔ اسی طرح مولانارومی کی مثنوی معنوی کے کئی قدیم تصویری نسخے بھی ہیں ۔ ان سب کے ساتھ حضرت مولانا کے استعمال میں رہنے والے لباس ، ٹوپیاں اور عمامے بھی ہیں ۔
عجائب گھر میں مولانا رومی کے دور کے درویش کی زندگی اور رہن سہن سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے لیے مومی مجسموں کا سہارا بھی لیا گیا ہے ۔باورچی خانے میں مرشد اور مرید کھانا بنانے میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں ۔ کڑاہوں کے نیچے چولہوں میں آگ جل رہی ہے ۔ دیوار کے ساتھ کھانے پینے میں استعمال ہونے والے اس دور کی صراحیاں اور برتن رکھے ہیں ۔ یوں لگتا ہے جیسے بس ابھی کھانا تیار ہونے والا ہے اور پھر لنکر درویشوں مٰں تقسیم ہونے لگے گا۔ ایک چبوترے پر درویش رقص میں مصروف ہیں اور پاس ہی کچھ درویش حلقہ بناکر تصوف کی گھتیاں سلجھانے میں مصروف ہیں ۔ یہ مناظر دیکھتے ہوئے یوں لگ رہا ہے جیسے ہم بھی حضرت مولانا کے دور میں پہنچ گئے ہیں۔
مزار کے قریب ہی ایک بازار ہے جہاں سوغات کے طور پر حضرت مولانا کے زمانے میں استعمال کیے جانے والے برتن ، لکڑی کے چمچ اور لباس سمیت دیگر اشیا فروخت کے لیے موجود ہیں ۔ روایتی ترک مٹھائیاں بھی رکھی ہیں جو یہاں آتا ہے ، وہ کچھ خریدے بغیر نہیں رہتا۔
مولانا رومی کے مزار کے قریب ہی موجود کلچرل سنٹر میں جائے بغیر قونیہ کا سفر نامکمل رہتا ہے ۔ مقامی وقت کے مطابق آٹھ بجے ہم بھی اسٹیڈیم کے اندر میں بنی نشستوں پر بیٹھ چکے ہیں ۔ درمیان میں گول دائرے میں اپنے مخصوص لباس میں درویش نظر آرہے ہیں ۔ جیسے ہی سازندے اپنی انگلیوں کو حرکت دیتے ہیں ۔ درویشوں کے قدم بھی اٹھنے لگتے ہیں ۔ کائنات کی گردش کی طرح ایک دائرے میں درویش کا جسم گھومنے لگتا ہے ۔ سر کا بوجھ اٹھائے گردن دائیں کندھے پر ڈھلک جاتی ہے اور پہلے سینے پر باندھے دونوں ہاتھ فضا میں بلند ہوجاتے ہیں ۔ ایک ہاتھ آسمان کی جانب اٹھتا ہے اور دوسرا زمین کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ یعنی درویش نہیں کائنات گردش کررہی ہے اور آسمان وزمین کو ہاتھ سنبھالے ہوئے ہیں ۔ مولانا رومی کے درویشوں کا یہ رقص وقفے وقفے سے دو گھنٹے جاری رہا ۔ درمیان میں ترک زبان میں ایک صاحب حضرت مولانا کی تعلیمات کی روشنی میں تصوف کی منازل اور معرفت کے اسلوب بتاتے جارہے ہیں ۔ محفل اختتام کو پہنچی لیکن دل ہے کہ دھڑکے جا رہا ہے اور دماغ ہے کہ رقص درویش میں مصروف ہے ۔
مولانا جلال الدین رومی اب سے748 برس پہلے دنیا سے پردہ فرماگئے تھے ۔ ان کے عرس کی تقریبات کا آغاز ہرسال 10 دسمبر سے ہوتا ہے جو 17 دسمبر تک جاری رہتی ہیں ۔ 1925 تک خلافت عثمانیہ میں یہ عرس ہجری سال کے حساب سے منایا جاتا رہا لیکن خلافت عثمانیہ کے بعد 96 سال سے اب عرس کی تقریبات کا آغاز عیسوی سال کے حساب سے ہوتا ہے ۔