میڈرڈ (پاک ترک نیوز)
نیٹو کے سپین کے دارالحکومت میں ہونے والے اہم سربراہی اجلاس کے فیصلے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں جن میں روس کو شراکت داروں کی فہرست سے خارج کر کے براہ راست خطرہ قرار دے دیا گیا ہے۔ اور چین کو بھی مدمقابل ملک قرار دے دیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق نیٹو سربراہی اجلاس کے دوران کیے گئے اسٹریٹجک فیصلوں کے مطابق ماسکو کو نیٹو کے شراکت داروں سے خارج کر دیا گیا ہے۔اور اب نیٹو روس کو اپنی سلامتی کے لیے "سب سے اہم اور براہ راست خطرہ” سمجھتا ہے۔ یہ بلاک چین کا مقابلہ کرنے، ایشیا بحرالکاہل کے علاقے اور سوویت یونین کے بعد کے علاقے میں اپنی شراکت داری کو وسعت دینے اور اپنی دفاعی صلاحیتوں کو تقویت دینے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ بلاک کی توسیع کو "تاریخی کامیابی” کہا گیا۔
چنانچہ تنظیم اب روس کو ایک پارٹنر کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتی، لیکن وہ مواصلاتی چینل کو کھلا رکھنے کے لیے تیار ہے۔ نیٹو کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ روس کے ساتھ تصادم کا خواہاں نہیں اور نہ ہی اسےماسکو سے کوئی خطرہ لاحق ہے۔
نیٹو کا خیال ہے کہ روس اور چین کے درمیان شراکت داری کو گہرا کرنا اتحاد کی اقدار اور مفادات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔جبکہ چین عالمی لاجسٹکس اور معیشت کو کنٹرول کرکے موجودہ عالمی نظام کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔جس کے مقابلے کے لئے اتحادانڈو پیسیفک میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ تعاون کو گہرا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
نیٹو کی توسیع اس اتحاد کے لیے ایک تاریخی کامیابی بن گئی ہے، جس سے اسے تقویت ملی ہے اور "لاکھوں یورپی شہریوں کی حفاظت” کو یقینی بنایا گیا ہے۔اس ضمن میں نیٹو اپنے دفاع کے لیے اپنی افواج کو "نمایاں طور پر مضبوط” کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جس کے لئے رکن ممالک نے اپنے فوجی بجٹ کو جی ڈی پی کے 2 فیصد سے زیادہ بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
مزید براں نیٹو کی جوہری ڈیٹرنس کی حکمت عملی امریکی جوہری ہتھیاروں کی آگے کی تعیناتی اور دلچسپی رکھنے والے اتحادیوں کے تعاون پر منحصر ہے۔البتہ نیٹو مصنوعی ذہانت کے فوجی استعمال سمیت جدید ٹیکنالوجیز تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔
یہ بلاک یوکرین اور جارجیا کے ساتھ اپنے شراکت داری کے تعلقات کو مضبوط کرتا رہے گا، جو اس اتحاد میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔جبکہ نیٹو کے رہنماؤں نے یوکرین کی حمایت میں اضافہ کا ایک پروگرام بھی منظور کیا ہے۔ جس میں کیف کو ضرورت کے مطابق زیادہ سے زیادہ فوجی اور مالی امداد فراہم کی جائے گی۔