پاکستان روس سے کیا سیکھ سکتا ہے؟

تحریر:سلمان احمد لالی۔
روس یوکرین جنگ کو شروع ہوئے چھ ماہ گزر چکے ہیں اور اس دوران امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے روس کو ممکنہ طور پر تمام ان پابندیوں سے جکڑنے کی کوشش کی گئی جن کی صلاحیت ان کے پاس موجود تھی۔ تاریخ میں اس سے پہلے کسی ملک پر اس قدر پابندیاں نہیں عائد کی گئیں جس قدر روس پر عائد کی گئیں ہیں وہ شاید شمالی کوریا کے نصیب میں ہی آئیں ہوں گی۔
گمان تھا کہ روس کی معیشت جلد بیٹھ جائے گی اور روس کو یا تو گھٹنے ٹیکنا پڑھیں گے یا پھر کوئی انتہائی قدم اٹھانا پڑے گا۔ سوویت یونین کی مثال کو سامنے رکھیں تو زیادہ امکان یہ ہی تھا کہ روس غیر مشروط طور پر جنگ سے پیچھے ہٹ جائے گا اور یہ فیصلہ پیوٹن کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنے گا۔ نئی حکومت کو بھی امریکی اور مغربی شرائط پر معافی ملے گی اور روسی طاقت کے دانت کھٹے ہوجائیں گے۔
لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جنگ چھ ماہ سے جاری ہے۔ یوکرین آہستہ آہستہ کمزور ہوتا جارہا ہے۔ روس نے اپنے جنگی اہداف کا ایک طویل لڑائی کیلئے ازسر نو تعین کر لیا ہے۔
اور سب سے حیران کن بات ہے کہ روسی کرنسی روبل جنگ سے پہلے کی سطح سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ سب ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ روسی معاشی نظام میں کتنا دم ہے؟روسی سینٹرل بینک چار سے چھ فیصد کساد بازاری کی پیشین گوئی کر رہا ہے جو کہ گزشتہ اندازوں سے بہت بہتر ہے۔
گزشتہ ہفتے سینٹرل بینک نے شرح سود میں کٹوتی کی جو کہ اس بات کا واضح اشارہ ہےکہ معاملات اندازے سے زیادہ بہتر ہیں۔
شر ح سود کو ایک سو پچاس بیسس پوائنٹس کی کمی سے آٹھ فیصد تک کر دیا گیا حالانکہ مارکیٹ نے اندازہ کیا تھا کہ اس میں صرف پچاس بیسس پوائنٹس کی کمی کی جائے گی۔ ایسا ملک میں طلب یعنی ڈیمانڈ میں اضافے کی حوصلہ افزائی کیلئے کیا گیا ہے۔
گوکہ روسی معیشت پر پابندیوں کے اثرات پڑھے ہیں لیکن وہ اتنے دور رس اور گہرے نہیں ہیں ۔سینٹرل بینک کو توقع ہے کہ 2024تک معیشت ترقی کی جانب لوٹ آئے اور گزشتہ ماہ افراط زر میں بھی کمی ہوئی جو 17.1فیصد سے 15.9فیصد تک پہنچ گئی۔
لیکن ایسا کیوں ہے یہ پہلے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنگ سے پہلے ہی پیوٹن ایک طویل عرصے سے اس کی تیاری کر رہے تھے۔ روس کے پاس تیل اور گیس کی وجہ سے زر مبادلہ کے ذخائر وافر مقدارمیں موجود تھے۔ پھر جنگ کے بعد تیل کی قیمتوں میں جس طرح اضافہ ہوا س سے بھی روس کو فائدہ ہوا اور سب سے اہم بات ی ہ ہے کہ روس پر بہت بڑی تعداد میں اشیا اور مصنوعات کو مغربی ممالک اور انکے اتحادیو ں سے در آمد کرنے پرپابندی لگادی گئی جس سے کرنٹ اکاونٹ سرپلس میں چلا گیا۔
در آمدی پابندیوں سے روس کی کئی انڈسٹریوں کو بہت نقصان پہنچا لیکن پھر بھی روس اس معاشی تباہی سے دوچار نہیں ہوا کہ جس کی توقع کی جارہی تھی۔اسکی کئی وجوہات ہیں لیکن ایک بڑی وجہ یہ ہےکہ روس ابھی بھی در آمدات سے زر مبادلہ کمارہا ہے۔ ایک تو چین، بھارت اور سعودی عرب جیسی بڑھی معیشتوں نے روس پر پابندی عائد نہیں کی۔
روس تیل اور گیس کیلئے خریدار تلاش کرنے میں کامیاب رہا ہے اور تیل کی قیمتوں میں اضافے سے اسے مدد ملی ہے۔
لیکن روس کو اس حوالے سے جلد سوچنا ہو گا کہ درمیانی عرصے میں وہ پابندیوںکےمضر اثرات سے ضرور بچ گیا ہے لیکن طویل مدتی اثرات نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ بالخصوص ، مشینری ہائی ٹیک اشیا کی در آمد پر پابندی انڈسٹری کیلئے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔اسکے علاوہ یورپ نے روس سے تیل ، گیس اور کوئلہ کی خریداری کو مرحلہ وار کم کرنے یا مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیاہے۔
اسکے علاوہ جی سیون ممالک نے روسی سونے کی در آمد پر پابندی عائد کی جس سے روس اربوں ڈالر کماتا ہے۔روس دنیا میں دوسرا سب سے زیادہ سونا پیدا کرنے والا ملک ہے۔
لیکن اس کے باوجود ماہرین کہتے ہیں کہ یہ پابندیاں پیوٹن سے اپنی بات منوانے میں کامیاب نہیں ہوں گی۔
پاکستان جیسے ممالک کو روس کی مثال سے ضرور سیکھنا چاہیے بالخصوص ایسے حالات میں جب مغرب اور امریکہ مخالف جذبات عروج پر ہیں اور معاشی مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو سیاسی پارٹیوں اور نہ ہی کئی حکومتی عہدوں میں سینئر اور تجربہ کار ماہرین معیشت کو جگہ ملتی ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت اس انداز میں چلائی گئی ہے کہ وہ کسی بڑھے دھچکے کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
پاکستان کی معاشی منصوبہ بندی کو اب مختلف زاویہ سے دیکھنا ہوگا، اس کو بدلتے ہوئے عالمی حالات اور اپنی تزویراتی مجبوریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دینا پڑھے گا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کا تعین بڑھی حد تک پاکستان کی معاشی مجبوریاں کرتی آئی ہیں حالانکہ خارجہ پالیسی کے اہداف کو مد نظر رکھتے ہوئے معاشی پالیسی ترتیب دینی چاہیے۔ اس حوالے سے ایک بہت ہی صائب مشورہ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم شہبا ز شریف نے دیا کہ تما م جماعتوں کو میثاق معیشت کرنا چاہیے تاکہ معاشی پالیسوں کے تسلسل کو برقرار رکھا جا سکے اور معیشت کو تین سالہ اور پانچ سالہ بنیادوں کے بجائے طویل مدتی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے تحت چلایا جاسکے۔