حال ہی میں بالی ووڈ فلم کشمیر فائلز نے ریلیز کے بعد باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑھے ہیں۔
اس فلم کے بارے میں اگر میں رد عمل دوں تو اسے تین جملوں میں ایسے بیان کروں گا: حقائق کو مسخ کرنے کی مذموم کوشش، مسلمانوں کومن حیث القوم دہشتگرد دکھانے کی ناکام کوشش اوربھارت میں نفاق کا بیج بونے کی کسی حد تک کامیاب کوشش۔
یہ فلم 1989میں وادی میں تحریک آزادی کے بعد کشمیری پنڈتوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت کی کہانی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ بہت دلخراش ہے اس میں صعوبتیں بھی ہیں تشدد کی شرمناک داستان بھی.لیکن فلم میں جس طرح سے اس واقعے کو نسل کشی اور ہولوکاسٹ سے تشبیہ دے کر حقائق کو مسخ کیا گیا وہ قابل مذمت ہے۔
وویک اگنی ہوتری کی یہ کم بجٹ فلم باکس آفس پر اس وقت چھائی ہوئی ہے اور سینٹرل حکومت سے لے کر کئی ریاستوں کی حکومتوں نے فلم پر ٹیکس کی چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے اور سرکاری ملازمین کو فلم دیکھنے کیلئے چھٹی دی گئی ہے۔ تاریخی حقائق سے واقف کسی بھی شخص کیلئے یہ فلم ہضم کرنا بہت مشکل ہے ۔گو کہ میں اپنے پسندیدہ اداکار انوپم کھیر کی اداکاری سے متاثرہوئے بنا نہیں رہ سکا لیکن فلم کے بیانیے نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ہمارا مشرقی ہمسایہ خود اپنے ساتھ کیا کر رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ تحقیق کرکے بتائیں کہ کیا کشمیری پنڈتوں کی ہجرت(باوجود انتہائی تکلیف دہ ہونے کہ)کو نسل کشی قرار دیا جاسکتا ہے؟کیا ہر کشمیری مسلمان قاتل ہے؟
فلم میں جواہر لال یونیورسٹی کو خاص طور پر نشانہ بناگیا ہے جس میں روشن خیال طلبا اور اساتذہ کو دانشور مسخروں کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ فلم دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسے ایک خاص قسم کے بیانیے کی ترویج کیلئے پروڈیوس کیا گیا ہے۔ وویک اگنی ہوتری کشمیری پنڈتوں کی صعوبتوں کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں، انکی حقائق سے روگردانی ہندو قوم پرستی کی موجودہ لہر سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ۔
میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ دنیا میں کونسے ملک کے حکمران اپنی ہی عوام کو اس حد تک تقسیم کرسکتے ہیں کہ ملک بد امنی اور عدم استحکام سے دوچار ہوجائے۔ یقین جانیے میں ہندوستان کو بطور ایک ملک کے بہت پسند کرتا ہوں اور پاکستان کے ساتھ اسکے بہتر تعلقات کاخواہاں ہوں۔میری زندگی کی چند بڑی خواہشات میں سر فہرست یہ ہےکہ میں ویک اینڈ پر صبح سویرے لاہور سےدہلی کیلئے نکلوں اور وہاں پہنچ کر کناٹ پلیس میں راجما چاول کھاوں، کولڈ کافی پیوں، حضرت خواجہ نظام الدین اولیا اور قطب الدین بختیار کاکی کے مزارات پر حاضری اور دعا کروں۔ اگلے روز انڈین کافی ہاوس سے ناشتے کے بعد خان مارکیٹ میں شاپنگ اور واپسی کیلئے نکلنے سے پہلے سردار سوجن سنگھ پارک میں اپنے مرشد سردار خشونت سنگھ کے گھر کی زیارت کرتے ہوئے لاہور کیلئے چل نکلوں۔ لیکن حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا کم از کم اس دہائی میں تو۔ پاکستان میں مجھ جیسے لوگوں کو بہت سی گالیاں پڑھتی ہیں ، ٹوئٹر پر ٹرولز اس اس ذات کے فتوے دیتے ہیں جو کسی بھی شریف آدمی کو صدمے سے دوچار کرنے کیلئے کافی ہیں لیکن ہم ٹھہرے ڈھیٹ اور اوپر سے امن اور انسانیت دوستی کو romanticize کرنے والے۔ بھلا جہاں رومانس ہو وہاں تکلیف نہ ہو اور طعن و تشنیع نہ ہو ۔ یہ ہو کیسے سکتا ہے۔
اب اندازہ کیجئے کہ موجودہ صورتحال میں مجھ جیسے بہت سے پاکستانی کیسا محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ فلم اور بی جے پی کا اسکی حمایت میں کھل کر سامنے آنا بھارتی مسلمانوں کیلئے ایک وارننگ سے کم نہیں کہ انکے ساتھ آئندہ دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ اگر ماہرین کی رائے سنیں تو لگتا یوں ہے کہ بھارت میں تقسیم سے پہلے کانگریسی وزارتوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پیدا ہونے والی ہے جب محمد علی جناح جیسے نیشنلسٹ اور سیکولر رہنما بھی علیحدگی کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگئے۔ علیحدگی پسندی کا موجب ہمیشہ اکثریت کی جانب سے اقلیت کا دم گھونٹاہوتا ہے۔ چند دن پہلے ایک صحافی دوست نے بھارت کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نے بھارت کو وہ حشر کیا ہے جو چین اور پاکستان مل کربھی نہ کرسکتے۔ اس وقت چنئی سے لےکر امرتسر، مہاراشٹرا سے اروناچل پردیش تک اتنی فالٹ لائنز ہیں کہ جو پوری قوم کو ٹکڑیوں میں بانٹنے اور تباہی لانے کیلئے کافی ہیں۔
لیکن کیا بطور پاکستانی ہمیں اس پر خوش ہوا چاہئے؟ میرے خیال میں پاکستان میں سٹریٹجک کمیونٹی اپنی مشرقی سرحدکے پار بھارت جیسے بڑے ملک میں عدم استحکام نہیں چاہتی۔ ٹیکٹیکل لیول پر دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں متحرک رہتی ہیں لیکن ٹاپ لیول پر مختلف حساس اور دفاعی اداروں کے درمیان روابط کا نظام اسی چیز کو ممکن بنانے کیلئے ہے کوئی بھی معاملہ کنٹرول سے باہر نہ ہوجائے۔
لیکن بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ آئی ایس آئی کا کیا دھرا نہیں ہے بلکہ شری نریندرابھائی مودی ، امیت شاہ اور اجیت دوول کی کارکردگی ہے۔
ٹوئٹر پر کسی نے یہ بالکل درست کہا ہےکہ کشمیر فائلز فلم کی مقبولیت بھارتی معاشرے میں نفرت ، غیر منطقی رویے اور تاریک مستقبل کی عکاس ہے۔