دنیا میں حالات بہت تیزی بدل رہے ہیں ، دو واقعات نے عالمی سیاست کا دھاربدل دیا ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا اور روس یوکرین جنگ۔ اہل مغرب ایشیاکی دو بڑی طاقتوں چین اور روس کے عزائم سے خوفزدہ ہوکرپھر سے صف آرا ہورہے ہیں۔ وہ تمام ممالک جو اس سے پہلے مغربی امداد کے متمنی تھے انکا رجحان چین کی جانب سے ہوتا دیکھ کر ایک بار پھر ان ممالک پر دباو بڑھانے کے تمام ہتکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔
پاکستان اسکی تازہ مثال ہے جہاں چینی بی آر آئی کا فلیگ شپ منصوبہ سی پیک زیر تکمیل ہے اور اسکی کامیابی پر بی آر آئی کے عالمی منصوبے کی کامیابی کا انحصار ہے۔ چین سی پیک کی کامیابی اور اسکے معاشی ثمرات کو دنیا کے سامنے ایک مثال کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔ لیکن امریکہ دنیا بھر میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو کم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہو چکا ہے۔
پاکستان میں حالیہ دنوں میں جو واقعات پیش آئے ہیں اور اسکے نتیجہ میں جس طرح ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہوا ہے ، اس کی کڑیاں امریکہ کی اس گرینڈ اسٹریٹجی سے ملتی ہیں۔
امریکی منصوبے کے مطابق پاکستان کو سیاسی طور پر عدم استحکام سے دوچار کرکے اسکی معیشت کا بھٹہ بٹھانا ہے تاکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے آزاد نہ ہوسکے اور اسکی خودمختاری کو محدود سے محدود ترکرکے مغربی ممالک کا دست نگر بنا دیا جائے۔
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد امریکی اسٹیبلشمنٹ اس حد تک حساس ہو چکی ہے کہ وہ کسی بھی ملک کی جانب سے غیر جانبداری کے تاثر کو بھی روس کی حمایت تصور کرتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم کے دورہ روس کے دوران ہی یوکرین پر حملہ اور پاکستان کی جانب سے غیر جانبداری کی پالیسی اپنانا واشنگٹن کیلئے ناقابل برداشت ہوگیا ۔
اس ساری صورتحال میں پاکستان کی بری افواج کے سربراہ جنہو ں نے عمران خان کی حکومت کو بے حد معاونت فراہم کی وہ بھی بعض وجوہات کی بنیاد پر غیر جانبدارہونے پر مجبور ہوگئے۔ افواج پاکستان اور ملک کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی کے تمام ارکان نے سیاستدانوں سے تمام روابط ختم کردیے۔بعض ارکان اسمبلی کی جانب سے بار ہا رابطہ کرنے کے باوجود انہیں کسی قسم کی ڈکٹیشن نہ دے کر خود کو اپنے آئینی اور قانونی دائرہ اختیار میں محدود کرلیا گیا۔ اسکی کئی وجوہات ہیں۔ افواج پاکستان نے ملک کے وسیع تر مفاد میں گزشتہ حکومت کی مدد اور اعانت کی جس سے ایک کمزور اور واضح اکثریت سے محروم حکومت کو استحکام نصیب ہوا لیکن اپوزیشن اور حکومت مخالف عناصر نے عمران خان حکومت کی پے درپے ناکامیوں اور غلطیوں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ اسٹیبلشمنٹ کو بنایا اور حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان موافقت کو ختم کرنے کیلئے کئی سازشیں کی گئیں۔ ان سازشوں میں سابق وزیرا عظم عمران خان کے بعض مشیروں نے بھی پورا پورا حصہ ڈالا اور سویلین حساس اداروں کی غلط رپورٹنگ نے بھی بڑا کردار ادا کیا۔
اس غیر جانبداری کی دوسری وجہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے عمران خان کے ساتھ روا رکھے گئے رویے کے رد عمل میں بعض اقدامات بھی ہیں جنہیں بغیر سوچے سمجھے اور پاکستان کی مفادات کو یکسر نظر انداز کرکے اپنایا گیا۔ یاد رہے کہ افواج پاکستان کےپاس موجود ہتھیار اور گولہ بارودکی بڑی تعداد امریکی ساختہ یا اسکے اتحادیوں سے خریدا گیا ہے جس کی مینٹیننس، سپئر پارٹس کی فراہمی اور اایمونیشن کی فراہمی کیلئے امریکہ کے ساتھ عسکری تعاون بے حد ضروری ہے ۔ اگر کسی وجہ سے ان تعلقات میں دراڑ آجاتی ہے کہ پاک فضائیہ کے پاس موجود سب سے طاقت ور اور جدید ایف 16طیاروں کی مرمت اور انہیں فعال رکھنے کی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان اٹھ جائے گا۔ ایسے میں بھارت کی جانب سے کسی بھی ایڈوینچر کا نتیجہ بہت زیادہ نقصان اور تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ موجودہ ماحول میں اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری اور عدم مداخلت کا فیصلہ گوکہ بہت ہی غیر مقبول ہے لیکن اسکے بیچھے کئی تزویراتی محرکات ہیں جن کا تعلق پاکستان کی دفاعی صلاحیت سے ہے۔ پاکستان کی فوج ایک طویل عرصے سے کم وسائل کے باوجود مغرب پر انحصار کم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور لیکن جس تیزی سے گزشتہ مہینوں میں حالات بدلے ایسے میں بہت سے مسائل پیدا ہوئے جن کی وجہ سے بہت تیزی اور نہ چاہتے ہوئے بھی ملک کی بقا کی خاطر مشکل فیصلے کرنے پڑے۔
گو کہ جس طرح سے اپوزیشن جماعتوں نے مبینہ طور پر پیسے اور دیگر ہتکنڈوں کو استعمال میں لا کر حکومت کو گھر بھیجا اور تمام اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ ملا کر مخلوط حکومت قائم کی اسکی اخلاقی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے اور عوام کی جانب سے ان افراد کے حکومت میں آنے پر شدید رد عمل بھی سامنے آرہا ہے جن پر سنگین بد عنوانی کے مقدمات ہیں ۔ تاہم ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے تمام اسباب موجود اور امریکی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ جاری ہے۔
اس سارے آپریشن رجیم چینج کے بعدجو حالات پیدا ہوئے ان سے یہ نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں۔
پاکستان کی معاشی صورتحال اور موجودہ نظام میں خامیوں کی وجہ سے ہماری خودمختاری کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں عدم مداخلت سے ملک میں شدید سیاسی عدم استحکام جنم لے چکا ہے کیوں کہ گزشتہ چالیس برس میں پورے نظام کو دو جماعتوں نے کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ حالیہ مہینوں میں اس عدم مداخلت کا نتیجہ دیکھ کر یہ تجزیہ کرنا مشکل نہیں ہےکہ اسٹیبلشمنٹ نے نظام کر گرنے سے بچانے کیلئےکئی مرتبہ نہ چاہتے ہوئے بھی مثبت کردار ادا کیا ہے۔
افواج پاکستان نے انتہائی مشکل حالات میں انتہائی غیر مقبول فیصلہ کرتےہوئے نہ صرف ملکی دفاع کی خاطر تنقید کا سامنا کیا بلکہ نا موافق حالات کے باوجود بھارت کے خلاف پاکستان کی دفاعی ضروریات اور تزویراتی معاملات کو ترجیح دی اور خود کو آئین کے متعین کردہ خول میں مقید کرلیا۔
بھارت میں فاشسٹ مسلمان دشمن حکومت کب سے پاکستان پر ضرب لگانے کی تاک میں ہے اور اس حوالے سے خفیہ معلومات گزشتہ دور حکومت میں وزیر اعظم عمران خان کو بھی پہنچائی گئیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا کہ کسی قیمت پر بھارت کے خلاف پاکستان کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
بھارت کے مقابلے میں اگر افواج پاکستان کمزور ہوجاتی ہیں اور انکو ضروری سازو سامان کی سپلائی میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو چین پاکستان کی ایک حد سے زیادہ مدد کرنے سے قاصر ہوگا کیوں کہ عساکر کی تربیت زیادہ تر مغربی ہتھیاروں پر کی گئی ہے اور چینی ہتھیار اور جہاز محدود تعداد میں ہی موجود ہیں تاہم بھارت کی سرحدوں پر فوجی اجتماع کرکے وہ پاکستان پر دباو ضرور کم کرسکتا ہے جس کا مظاہرہ وہ حالیہ دو برسوں کے دوران کر چکا ہے۔
پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی تعاون نہ ہونے کے برابر ہے اور یوکرین جنگ کی وجہ سے اور بھارت سے گہرے تعلقات کی وجہ سے وہ پاکستان کی کسی بھی قسم کی مدد نہیں کر سکتا ۔
فوج اور عمران خان کے درمیان تعلقات میں دراڑیں ایک خاص منصوبے کے تحت ڈالی گئیں اور اس میں سابق وزیراعظم کے مشیروں نے اہم کردار ادا کیا۔
وہ مشیر اب بھی عمران خان کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں اور انہیں اسٹیبلشمنٹ کی جانب بد ظن کرنے پر تلے ہیں۔
ملک میں موجود ایک خاص طبقہ فوج مخالف جذبات کو ہوا دے کر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانےکے درپے ہے ۔
عمران خان کے مشیر یہ چاہتےہیں کہ وہ کبھی حکومت میں واپس نہ آئیں اور انہیں اس سسٹم سے نکال دیا جائے تاکہ ملک دوبارہ سے دو جماعتوں کے درمیان میوزیکل چئیر بنا رہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ روس امریکی انتخابات میں مداخلت کرکے پوری امریکی سوسائٹی میں تقسیم کا بیج بو چکا ہے جس کا نتیجہ شاید بہت بھیانک نکلتا ، موجودہ حالات بھارت یا کسی اور ملک کی جانب سے اسی طرز کا تجربہ بعید از قیاس نہیں ہے۔
موجودہ حکومت کی پالیسیاں اور طرز حکمرانی آئے روز اپنا آپ عیاں کررہی ہے، اور پی ٹی آئی انسے فائدہ اٹھانے کے بجائے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی ترویج کر رہی ہے جو کہ ملک کی تزویراتی مجبوریوں سے آگاہی نہ ہونے اور غلط مشوروں کی وجہ سے ہے۔
آنے والے دنوں میں پاکستان انتہائی نازک صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہےا ور ایسے میں اگر عمران خان نے اپنی توپوں کا رخ اسٹیبلشمنٹ سے ہٹا کر حکومت کی جانب نہ کیا تو ملک میں جاری انتشار اور تقسیم کا فائدہ دشمن اٹھا سکتے ہیں۔
گوکہ موجودہ سیاسی بحران کے دوران اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اسٹریٹجک کمیونیکیشن کے محاذ پر کئی غلطیاں ہوئی ہیں جس سے بے پنا ہ نقصان ہوا ۔ ان غلطیوں کا جلد ازالہ بھی اداروں اور عوام کے درمیان بڑھتی خلیج کو کم کر سکتا ہے۔