از: سہیل شہریار
امارت اسلامیہ افغانستان میں اپنی دوسری حکمرانی کا پہلا سا ل مکمل کر چکی ہے۔مگر وہ عالمی سطح پر اپنے وجود کو منوانے سمیت جنگ زدہ ملک میں اقتصادی، سماجی اور انسانی بحرانوں سےنبرد آزما ہے۔یہ وہ بڑے مسئلے ہیں جن سے خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹناخالصتاً اسلامی شناخت کی حامل طالبان حکومت کے لئے ناممکن نہیں تو انتہائی دشوار ضرور ہے۔
طالبان گزشتہ سال 15 اگست کو افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آئے جب اچانک ہی امریکی حمایت یافتہ کابل انتظامیہ کے اہلکار ملک سے فرار ہو گئے اور غیر ملکی افواج کا انخلا ہوا۔تاہم جب سے طالبان نے حکومت سنبھالی ہےملک میںنسلی، علاقائی اور فرقہ وارانہ تقسیم اور سیاسی عدم استحکام بے ساختہ ختم ہوگیاہے۔
برسر اقتدارآنے کے بعد سے طالبان کی حکومت کوسفارتی محاذ پر بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔ کیونکہ تمام ترکوششوں کے باوجودوہ اپنے سب سے بڑے حامی پاکستان سمیت کسی بھی ملک سے امارت اسلامیہ کے وجود کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کروا سکے۔ جبکہ اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی تنظیموں میں بھی تاحال افغانستان کی نشست خالی ہے۔
عالمی برادری سے وعدوں کے باوجودخواتین پر پابندیاں عائد کرنے پر طالبان کو کئی بین الاقوامی اداروں اور ممالک کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ہزاروں خواتین کو سرکاری اداروں اور پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمتوں سے نکال دیا گیاہے۔ جبکہ ملک کے بیشتر حصوں میں لڑکیوں کو سیکنڈری اور ہائی اسکول کی سطح پر سرکاری اسکولوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔اگرچہ طالبان کے ترجمان نے اعلان کیا تھا کہ 21 مارچ 2022 سے لڑکیوں کے لیے سکول کھل جائیں گے۔مگر اس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔البتہ رواں سال مئی میں خواتین کے پردہ کرنے کے احکامات نے صورتحال مزید ابتر کر دی ہے۔
دوحہ معاہدے کے تناظر میںمغربی قوتوںکی خواہش تھی کہ طالبان پرامن بقائے باہمی پر عمل کرتے ہوئے افغا ن سیاسی دھڑوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اقتدار میں شراکت دار بنیں۔مگر ایسا نہیں ہوا اور15اگست کے بعد شروع ہونے والا یہ مشاورتی عمل جس میں حامد کرزئی اور گل بدین حکمت یار سمیت دیگر شامل تھے ۔بے نتیجہ ختم ہو گیا۔
طالبان سے پہلے کی افغان انتظامیہ کے بجٹ کا دو تہائی سے زیادہ حصہ بیرونی امدادسے فراہم کیا جاتا تھا اور یہ سب پچھلے سال رک گیا۔ بیشتر بین الاقوامی ادارے ملک چھوڑ گئے۔ورلڈ بینک، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) اور یو ایس فیڈرل ریزرو نے بھی بین الاقوامی فنڈز تک افغانستان کی رسائی کاٹ دی ہے۔ واشنگٹن نے افغان زرمبادلہ کے تقریباً 9 ارب ڈالر کے ذخائر کو بھی منجمد کررکھا ہے۔ان پابندیوں نے ملک کی معیشت کو ایک گہرے بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ بینکنگ کا نظام تقریباً تباہ ہو چکا ہے۔ ہزاروں کاروبار بند ہونے کے بعدبے روزگاری، غربت اور بھوک خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو امداد کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جہاں غذائی قلت، خسرہ اور پولیو جیسی کئی بیماریاں عروج پر ہیں، صحت کے ادارے بنیادی ضروریات سے دوچار ہیں۔ان سب کے متوازی طور پر، اقوام متحدہ اور اس سے منسلک اداروں نے ملک میں گہرے ہوتے انسانی بحران کی طرف توجہ مبذول کرائی اور افغانستان کی مدد کے لیے کارروائی کا مطالبہ کیا۔ نتیجتاً افغانستان پر پابندیوں میں کچھ حد تک نرمی کی گئی تھی لیکن ملک میں انسانی بحران بدستور برقرار ہے۔
اسی بحران کے نتیجے میںافغانستان کونقل مکانی کے ایک لامتناہی سلسلے کا سامنا ہے۔ نہ صرف لوگوں کی بڑی تعدادایک بار پھر پاکستان، ایران اور ترکی کی طرف ہجرت کر چکی ہے بلکہ ساتھ ہی افغانستان میں قیام کے دوران مغربی افواج کے لئے خدمات سرانجام دینے والے ہزاورں افراد متعلقہ ملکوں کی جانب ہجرت کے لئےویزوں کے انتظار میں اسلام آباد، انقرہ اور تہران کی سڑکوں کی خاک چھان رہے ہیں۔
اگرچہ طالبان کی واپسی کے بعد امن و امان میں بہتری آئی ہے۔ مگر داعش/آئی ایس آئی ایس کی جانب سے عام شہریوں، خاص طور پر افغان شیعوں کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں بند نہیں ہوئیں۔جن میں سینکڑوں لوگ مارے گئے۔
دوسری جانب پنجشیر میںافغانستان کے قومی مزاحمتی محاذ نے، احمد مسعود کی قیادت میں اور سابق فوجی ارکان اور زیادہ تر تاجکوں کی حمایت سے، پنجشیر اور پروان جیسے شہروں میں طالبان کے خلاف مزاحمت شروع کررکھی ہے۔ جہاں آبادی کی اکثریت تاجک ہے۔
اپریل میں کیے گئے ایک فیصلے کے ساتھ، طالبان نے اعلان کیا کہ پو رے ملک میں شراب، ہیروئن، منشیات کی گولیاں، بھنگ جیسے نشہ آور اشیاء کے استعمال اور ان پودوں کی کاشت جن سے یہ حاصل کی جاتی ہیں، تجارت اور ہر قسم کی منشیات تیار کرنے والی فیکٹریوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔اور جو بھی اس فیصلے کی خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور سزا دی جائے گی۔
تاہم احکامات پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
امارت اسلامیہ کو پاکستان، ایران، چین، تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ سرحدی مسائل وراثت میں ملے ہیں۔ڈیورنڈ لائن، جو افغانستان کو پاکستان سے الگ کرتی ہے اور اسے پچھلی افغان انتظامیہ نے تسلیم نہیں کیا تھا، فی الحال طالبان انتظامیہ نے بھی اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔اس کے علاوہ، چین، تاجکستان اور ازبکستان نے بھی طالبان کو کئی بار خبردار کیا، اور یہ دعویٰ کیا کہ افغانستان کے شمال میں مسلح ڈھانچے موجود ہیں۔مگرطالبان کی جانب سے انکے خلاف کوئی موثر کارائی سامنے نہیں آسکی ہے۔
آخر میں اقتدار کی پہلی سالگرہ کے موقع پر طالبان حکومت کی ایک سالہ کار کردی کا اجمالی جائزہ لیں تو مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے سوا کو ئی قابل ذکر کامیابی نظر نہیں آ رہی۔ جبکہ حکومتی ترجمانوںکا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک مرکزی حکومت قائم کر لی ہے، اور افغانستان کو مکمل خودمختاری حاصل ہو گئی ہے۔اس سے سیاسی استحکام آیا ہے اور عدم تحفظ، بدعنوانی اور نقل مکانی کا خاتمہ ہوا ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ سابقہ انتظامیہ کے 500,000 ملازمین کو معافی دی گئی اور انہیں دوبارہ افرادی قوت میں شامل کیا گیاہے۔
افغانستان کے پاس اب "مکمل طور پر خودمختار بجٹ ہے”۔ افغان برآمدات دگنی ہو گئی ہیں جبکہ گزشتہ سال 100 نئی سرمایہ کاری کمپنیاں رجسٹر کی گئی ہیں۔طالبان انتظامیہ نے سول سیکٹر میں 330,000 نئی ملازمتیں پیدا کیں اس کے علاوہ "کان کنی، تعمیرات اور دیگر نجی شعبوں میں لاکھوں ملازمتیں”پیدا ہوئی ہیں۔ترجمان نے دعویٰ کیاہے کہ ملک میں ایک ہزار غیر ملکی رپورٹرز اور 250 مقامی میڈیا ہاؤسز کام کر رہے ہیں۔