امریکا نے افغانستان میں فوج کی بات مانی اور شکست کا سامنا کیا: وزیر اعظم

 

لندن (پاک ترک نیوز) وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ امریکا کو افغانستان کو امدادی پیکج دینا ہوگا یا کسی ایسے ملک کے خاتمے کا سامنا کرنا پڑے گا جو داعش کے عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ بن جائے گا۔

اسلام آباد میں برطانوی آن لائن خبر رساں ادارے مڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ واشنگٹن اس چیلنج کو پورا کرے کیونکہ ملک، جہاں امریکا کی زیرقیادت ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے منسلک تنازع میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے ہیں، ایک بار پھر بھاری قیمت ادا کرے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہ واقعی نازک وقت ہے اور امریکا کو خود کو اکٹھا کرنا ہوگا کیونکہ امریکا میں لوگ صدمے کی حالت میں ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ کسی طرح کی جمہوریت، قوم کی تعمیر یا آزاد خواتین کا تصور کر رہے تھے اور اچانک انہیں معلوم ہوا کہ طالبان واپس آگئے ہیں اس لیے ان میں بہت غصہ، صدمہ اور حیرت ہے، جب تک امریکا قیادت نہیں کرے گا ہم پریشان ہیں کہ افغانستان میں افراتفری ہوگی اور ہم اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے‘۔

عمران خان نے کہا کہ امریکا کے پاس افغانستان میں مستحکم حکومت کی حمایت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا کیونکہ طالبان ہی خطے میں داعش سے لڑنے کا واحد آپشن تھے۔

افغانستان میں داعش کی علاقائی وابستگی جسے اسلامک اسٹیٹ صوبہ خراسان کے نام سے جانا جاتا ہے، نے طالبان کے خلاف لڑائی کی ہے اور حالیہ مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں شمالی شہر قندوز میں ایک شیعہ مسجد پر بمباری جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔

عمران خان نے کہا کہ ’دنیا کو افغانستان کے ساتھ مشغول ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ اسے تنہا کرتے ہیں تو طالبان تحریک کے اندر سخت گیر لوگ موجود ہیں اور یہ آسانی سے 2000 کے طالبان کے پاس واپس جا سکتا ہے اور یہ ایک تباہی ہو گی‘۔

طالبان اب بھی امریکی محکمہ خزانہ کے پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں جو اس گروپ کو امریکی سینٹرل بینک میں موجد 9 ارب ڈالر سے زائد کے اثاثوں تک رسائی سے روکتے ہیں۔

انہوں نے سویت یونین کی واپسی کے بعد ہونے والی خانہ جنگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر وہ اس طرح افغانستان کو چھوڑ دیں گے تو میری پریشانی یہ ہے کہ افغانستان پیچھے جاتے ہوئے 1989 کا افغانستان بن سکتا ہے جہاں انتشار کے دوران 2 لاکھ افغان ہلاک ہوگئے تھے‘۔

عمران خان نے کہا کہ ’جو بائیڈن سن نہیں رہے تھے، ہم دونوں مین ابھی تک کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 2008 میں اس وقت کے امریکی سینیٹرز جو بائیڈن، جان کیری اور ہیری ریڈ کو خبردار کیا تھا کہ وہ افغانستان میں ایک دلدل پیدا کر رہے ہیں جس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے تاہم انہوں نے نہیں سنا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دو سال بعد پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہی پیغام امریکی صدر براک اوباما کو بھی دیا تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم بدقسمتی سے انہوں نے اپنے جرنیلوں کی بات سنی اور آپ جانتے ہیں کہ جرنیل ہمیشہ کیا کہتے ہیں، ہمیں مزید فوج اور مزید وقت دیں‘۔

انہوں نے انٹرویو میں بتایا کہ ’ہمیں طالبان کے پر امن طریقے سے کابل پر قبضے کو دیکھ کر بہت اطمینان ملا کیونکہ ہمیں خون کی ہولی کھیلے جانے کی توقع تھی تاہم جو ہوا وہ اقتدار کی پرامن منتقلی تھی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ ہم اس کے لیے قصوروار ٹھہرائے جارہے ہیں، تین لاکھ افغان فوجیوں نے بغیر کسی لڑائی کے ہتھیار ڈال دیے، واضح طور پر ہم نے انہیں ہتھیار ڈالنے کے لیے نہیں کہا تھا‘۔

طالبان کے جامع حکومت سازی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ’یہ جامع حکومت نہیں ہے تاہم کہا کہ یہ حکومت ایک عبوری حکومت ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان پڑوسی ریاستوں، خاص طور پر تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے جو کہ افغانستان کے اندر بڑی تعداد میں نسلی اقلیتیں ہیں، تاکہ طالبان کو نمائندگی بڑھانے کی ترغیب دی جا سکے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں ایک جامع حکومت کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان ایک متنوع معاشرہ ہے‘۔

afghanistanImran khanMiddle East EyePakistanTalibanusa