باکو(پاک ترک نیوز) تیس برس ہوئے جب امریکی کانگریس نے فریڈم اسپورٹ ایکٹ کے سیکشن 907میں ترمیم کی۔ یہ ترمیم اس جملے کے ساتھ کی گئی کہ جب تک آذربائیجان، آرمینیا اور ناگورنوکاراباخ کے خلاف ہر قسم کی ناکہ بندیوں اور اقدامات کو ختم کرنے کیلئے واضح اقدامات نہیں کرتا۔ تب تک باکو کو امریکی فوجی امداد کی فراہمی پر پابندی عائد رہے گی ۔ لیکن 2002میں اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے خود کو حاصل اختیارات کے تحت اس ترمیم کو معطل کردیا۔یہ ترمیم تب سے ہی معطل چلی آرہی ہے۔
ٹرمپ کے بعد موجودہ صدر جوبائیڈن نے بھی گزشتہ مئی ایک بار پھر اس ترمیم کو معطل کردیا جس کی بدولت باکو کو 2022میں بھی براہ راست امریکی فوجی امداد ملتی رہے گی حالانکہ اپنی انتخامی مہم کے دوران جوبائیڈن نے آرمینیائی باشندوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس ترمیم کی معطلی ختم کرکے اس پر عملدرآمد کریں گے۔یآرمینیائی لابی کو توقع تھی کہ جوبائیڈن کی جانب سے 1915میں عثمانی دور کے واقعات کو نسل کشی قرار دینے کے بعد آذربائیجان کے خلاف واشنگٹن کی حمایت حاصل کرنے اور سیکشن 907کو فعال کرنے کا وقت آگیا ہے۔آرمینیا میں حکومتی حلقے پرامید تھے کہ واشنگٹن اور باکو کے درمیان خلیج وسیع ہوگی لیکن ان امیدوں پر پانی اس وقت پھر گیا جب اس سیکشن 907کے غیر فعال ہونےکے بیس سال بعد بھی باکو کو آرمینیا کے مقابلے میں امریکی فوجی امداد زیادہ ملی۔
یہ فرق خاص طور پر صدر ٹرمپ کے دور میں سامنے آیا جب آذربائیجان کو 105ملین ڈالر مالیت کے ہتھیار ملے جبکہ آرمینیا کو اس مد میں صرف 16 ملین ڈالر مل سکے ۔ جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے بھی اس روش کو جاری رکھا جارہا ہے۔کئی حلقے یہ سوال کرتے ہیں کہ صدارتی مہم کے دوران جوبائیڈن کی جانب سے باکو کی فوجی امداد بند کرنے کے وعدوں کے پیچھے کیا محرکات تھے ؟ اس سوال کے جواب میں یہ بات قابل فہم ہے کہ شاید وہ نائب صدر کمالا ہیرس کے شہر کیلیفورنیا میں آرمینا نژاد باشندوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے تھے۔
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت امریکا کو یورپ میں آذربائیجان کی مدد درکار ہے ۔اس کے علاوہ کاکیشیا میں گرین انرجی کی ترقی اور جارحانہ ایرانی پالیسیوں کے سامنے بند باندھنے کیلئے بھی واشنگٹن کو باکو کا تعاون درکار ہے۔ ایسی صورتحال میں باکو کے روس کے ساتھ تعلقات بھی نظرانداز نہیں کیے جاسکتے اور امریکی سٹیٹ دیپارٹمنٹ امریکی امداد کی فراہمی روک کر باکو کو ماسکو کی جھولی میں نہیں ڈالنا چاہتا۔
گزشتہ برس آذربائیجان کے صدر نے سیکشن 907پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ممالک کے فیصلےغیر منطقی ہیں کیوں کہ کاراباخ کا علاقہ آذربائیجان کا ہے جس پر آرمینیا نے قبضہ کیا تھا اور امریکی کانگریس نے سیکشن 907 نامی بدنام زمانہ ترمیم منظور کرکے آذربائیجان کو نہ صرف فوجی بلکہ براہ راست امریکی امداد سے بھی محروم کردیا تھا۔الہام علی یوف کے مطابق اس ترمیم کے پیچھے یہ دلیل تھی کہ آذربائیجان آرمینیا کی ناکہ بندی کر رہا ہے حالانکہ یہ آرمینیا تھا جو آذربائیجانی علاقوں پر قابض تھا۔ اس حوالےسے انہوں نے امریکہ میں آرمینیائی لابی اور اسکے زیر کنٹرول میڈیا کی جانب سے تنازعے پر حقائق کو مسخ کرنے کے حوالے سے کردار کو بھی اجاگر کیا۔صدر الہام علی یوف نے کہا ، درحقیقت آرمینیا ایک جارح اور قابض ملک ہےآذبائیجان کی آرمینیا کے ساتھ 44روزہ کاراباخ جنگ کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کی ان چار قراردادوں پر عملدرآمد کی راہ ہموار ہوئی ہے جو فوری اور غیر مشروط طور پر آرمینیائی افواج پر نگورنو کاراباخ کے مقبوضہ علاقوں سے انخلا کا مطالبہ کرتی ہیں۔