تل ابیب(پاک ترک نیوز)
اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے کہا کہ ایران اور دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدہ جلد طے پاسکتا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ معاہدہ 2015میں طے پانے والی معاہدے سے بہت کمزور ہوگا۔
یہ بیان اس وقت آیا ہےجب ویانا میں ہونے والے مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔
ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں برطانیہ، چین ، فرانس، جرمنی اور روس براہ راست اور امریکہ بلواسطہ طور پر شامل ہیں ۔
2015 کے معاہدے میں جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے بدلے معاشی پابندیا ں اٹھانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن امریکی صدر ٹرمپ نے منتخب ہونے کے بعد اوبامہ دور کے اس معاہدے سے امریکہ کو نکال لیا اورایران پر سخت پابندیاں عائد کردیں جس کے بعد سے ایران کی جانب سے یورینیم افزودگی کا سلسلہ تیز کردیا گیا ۔ صدر جو بائیڈن کے منتخب ہونے کے بعد سے ایران کے ساتھ دوبارہ جوہری مذاکرات کے آغاز کیا گیا ہے جس میں جوہری سرگرمیوں کو معطل کرکے ایران کےخلاف پابندیاں ختم کرنے کے معاملے پر بات چیت ہو رہی ہے۔ ایران اس بات پر مصر ہےکہ نئے معاہدے میں یہ گارنٹی شامل کی جائے کہ امریکہ یا کوئی اور فریق معاہدے سے روگردانی نہ کرسکے۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ اگر ایران سے پابندیاں اٹھالی گئیں تو وہ اپنی تیل اور گیس کی دولت سے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل مخالف پراکسیز کو مضبوط کرےگا۔ اسرائیل کے اس موقف کو خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب کی حمایت بھی حاصل ہے۔اسرائیل پر ایران کی جانب سے اسکے اہم جوہری سائنسدان محسن فخریزادہ کے قتل کے علاوہ جوہری تنصیبات پر حملے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔