ایسے میں جب تہران یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کر رہا ہے ، مغربی ممالک 2015کے جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے کوششوں کو تیز تر کر رہے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے جرمن ہم منصب سے برلن میں ملاقات کےدوران ایران جوہری معاہدے کی جلد بحالی کی ضرورت پر زور دیا۔
بلنکن نے اپنے جرمن ہم منصب کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ فریقین معاہدے پر عملدرآمد کی جانب واپس آتے ہیں یا نہیں اسکا فیصلہ آنے والے چند ہفتوں میں ہوجائے گا۔
اعلٰی امریکی سفارتکار نے کہ ویانا میں حالیہ مذاکرات میں معمولی پیش رفت ہوئی ہے لیکن انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ مذاکرات میں سست روی کے باوجود معاہدے کی طرف لوٹنا اب بھی ممکن ہے۔
امریکی صدر نے بھی رواں ہفتے کہا کہ 2015 کے معاہدے کو دوبارہ فعال بنانے کی کوششوں کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔
جبکہ جرمن وزیر خارجہ نے کہا مسئلے کے حل کیلئے وقت بہت کم رہ ہے گیا ہے۔اسلئے فوری اور ٹھوس پیش رفت کی ضرورت ہے ، بصورت دیگر مشترکہ معاہدے تک پہنچنے میں فریقین کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ امریکہ ویانا مذاکرات میں بالواسطہ طور پر شامل ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے 2018میں ایران جوہری معاہدے سے امریکہ کو نکال لیا جس سے واشنگٹن اور تہران کے درمیان کشیدگی میںاضافہ ہوا۔
بائیڈن نے 2021 کے آغاز میں اقتدار سنبھالتے ہی کہا تھا ایران معاہدے کو فعال بنانے کے عزم کا اظہار کیا لیکن وہ ایرانی معیشت کیلئے زہر قاتل کی حیثیت رکنے والی پابندیوں کو ہٹانے پر راضی نہیں جس کی وجہ سے معاہدے کو دوبارہ فعال کرنے کیلئے جاری ویانا مذاکرات میں ٹھوس پیشرفت ممکن نہیں ہو سکی۔