برطانیہ پھر سیاسی بحران کے دوراہے پر

 

 

 

 

 

از ۔ سہیل شہریار
برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی جسے پہلے ہی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے ہاتھوں مقامی حکومتوں اور پارلیمان کے ضمنی انتخابات میں شکست اور اب تک کے عوامی پولز میں مسلسل مقبولیت میں کمی کا سامنا ہے۔ اب ایک نئے بحران کی جانب بڑھنا شروع ہو گئی ہے۔


بورس جانسن کی رخصتی اور خاتون وزیر اعظم لز ٹرس کے برسر اقتدار آنے کے ایک ماہ بعد ہی برطانوی پارلیمان کے ارکان نے نو منتخب وزیراعظم لز ٹرس کو نکالنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ اور اسی ہفتے فیصلہ کُن قدم اٹھایا جا سکتا ہے جبکہ پارلیمان نے خبردار کیا ہے کہ ایسی صورت میں معاملات نئے الیکشن کی طرف جائیں گے۔
برطانوی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق حکمران کنزرویٹو پارٹی کی اندرونی سیاسی چپقلش نے اب تک پارٹی کے دو وزرائے اعظم کو اپنی مدت پوری کرنے سے قبل ہی گھر بھجوا دیا ہے۔اور اب ایک مرتبہ پھر پارٹی کے100 سے زائد ارکان پارلیمنٹ نے ارادہ کر لیا ہے کہ وہ پارٹی کمیٹی کے ہیڈ گراہم بریڈی کے پاس لز ٹرس کے خلاف عدم اعتماد کے لیٹرز جمع کرائیں گے۔اور یہ سلسلہ آنے والے ہفتے میں شروع ہو جائے گا۔اور شنید یہ بھی ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کے ارکان کی کمیٹی پارٹی کے سربراہ گراہم بریڈی سے دو ٹوک الفاظ میں یہ کہنے پر اتفاق کر چکی ہے کہ وزیر اعظم لز ٹرس کو یہ بتایا جائے کہ "آپ کا وقت ختم ہو چکا ہے”۔
کنزر ویٹو پارٹی کے اند ر اب اس امر پر بھی بحث اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے کہ اگر پارٹی کا کوئی رکن وزیر اعظم پارٹی کے فیصلے کے باوجود عہدے سے الگ نہیں ہوتا تو اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے پارٹی کے قواعد اور پارلیمانی قوانین میں وہ تمام درکار تبدیلیاں متعارف کروائی جائیں جن کی مدد سے وزیر اعظم کو مختصر طریقہ کار کے بعد عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے ہٹایا جا سکے۔


میڈیا رپورٹس میں تو یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ گراہم بریڈی پارٹی ارکان پارلیمان کے اس اقدام کے خلاف مزاحمت کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اور انہوں نے بعض ارکان کو لز ٹرس کو ہٹائے کانے کے مطالبے کے جواب میں کہا ہے کہ لز ٹرس اور نو منتخب چانسلر جیریمی ہنٹ کو حق حاصل ہے کہ وہ 31 اکتوبر کو آنے والے بجٹ کے حوالے سے اپنی معاشی حکمت عملی ترتیب دیں۔
برطانیہ میں سیاسی بحران نیا نہیں بلکہ 2016 میں یورپی یونین سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد سے برطانیہ کے تین وزرائے اعظم وقت سے پہلے رخصت کیے جا چکے ہیں۔جن میں ڈیوڈ کیمرون، تھریسا مئے اور بورس جانسن کے بعد اب لز ٹرس جنہوں نے پچھلے ماہ ہی ٹیکسوں میں کمی کرنے کا وعدہ کر کے کنزرویٹو پارٹی کی قیادت حاصل کی تھی کو اپنی سیاسی بقا کا مسئلہ درپیش ہو گیا ہے۔
جبکہ سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ ارکان پارلیمان نے خفیہ طور پر اس معاملے پر بھی مشاورت کی ہے کہ لز ٹرس کو ہٹائے جانے کے بعد ان کی جگہ کس کو لایا جائے گا۔تاہم یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کے انکی جگہ لینے کے امیدواروں میں سیاسی چالوں کے ماہرسمجھے جانے والے سابق وزیر اعظم بورس جانسن کا نام بھی شامل ہے۔مگر اب کی بار بات کے صرف وزیر اعظم کی تبدیلی کی بجائے انتخابات کی طرف جانے کا امکان زیادہ ہے ۔کیونکہ ٹوریز کے اندرونی خلفشار کی وجہ سے ملک کو سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے۔


کنزرویٹو پارٹی میں بننے والی صورت حال عوامی سطح پر عدم اطمینان کا باعث بن رہی ہے جو پہلے ہی رائے عامہ کے حوالے سے ہونے والے پولز میں اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی سے پیچھے ہے۔

 

#british#britishprimeminister#ConservativeParty#elecation#elecations#PakTurkNews#sohailsharyarLondon