بھارتی سیاست اور پرشانت کشور

 

سلمان احمد لالی
بھارتی سیاست پر ایک طویل عرصے سے گہری نظر اور مشاہدے کے بعد بہت سی بھارتی سیاسی شخصیات ایسی ہیں جن کا کردار، انکی سیاسی بصیرت اور شخصیت بہت متاثر کن لگی۔ لیکن ان تمام روایتی شخصیات میں ایک غیر روایتی شخصیت ایسی ہے جس نےبھارتی سیاست کو اس حد تک متاثر کیا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اور وہ شخصیت پرشانت کشور کی ہے۔ پرشانت کوئی سیاستدان نہیں ہے بلکہ وہ خود کو ایک الیکٹورل کنسلٹنٹ کے طورپرمتعارف کرواتے ہیں۔ انکی سب سے پہلی خوبی ووٹر کی نبض سے واقف ہونا اور انتخابات کو جتوانے کی حیران کن صلاحیت ہے جس میں وہ جدید ٹیکنالوجی اور ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے اپنی کلائنٹ سیاسی جماعت کیلئے ایسی حکمت عملی اپناتے ہیں کہ وہ سیاسی جماعت اکثر روایتی سیاسی پنڈتوں اور تجزیہ کاروں کی توقعات ، امیدوں اور اندازوں کے برعکس حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
ایسا ایک دو بار ہوتو اتفاق سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر بار بار ہوتو یقین ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے پرشانت کشور کا جادو ہے۔ دوسری خوبی انکی بے پناہ حقیقت پسندی اور عاجزی و انکساری ہے۔ وہ انتہائی حقیقت پسندانہ انداز میں ڈیٹا کی مدد سے سائنٹیفک تجزیہ کرتے ہوئے ایسے حقائق بیان کرجاتے ہیں جن سے کسی روایتی سیاستدان کا مفر ممکن ہی نہیں۔
وہ پہلی دفعہ اس پیشے سے اس وقت منسلک ہوئے جب نریندر مودی نے گجرات سے نکل کر مرکزی سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اور وہ الیکشن جس نے کانگریس کی سیاست کو دفن کرکے رکھدیا اور مودی کو بھارتی تاریخ کا سب سے مقبول ترین وزیر اعظم بنایا بلکہ کئی دہائیوں کے بعد بی جے پی وہ واحد جماعت بنی جسے واضح اکثریت ملی۔اس الیکشن کی کیمپین کے پیچھے ایک دماغ کام کررہا تھا اور وہ دماغ پرشانت کشور کا تھا۔ پرشانت نے پورے ملک کے طول وعرض میں ایک انتہائی جامع سروے کے نتیجے میں جو ڈیٹا اکٹھا کیا اور بھارتی ووٹروں کی تمناوں آشاوں اور امیدوں سے آگاہی حاصل کی اسے مودی کی تقاریر، بی جے پی کے وسیع تر بیانیے کی تشکیل کیلئے استعمال کیا۔ یوں مودی ملک کے جس علاقے میں بھی جاتے وہ وہاں کے مسائل سے آگاہ ہوتے اور وہ ہی بات کرتے جو وہاں کی عوام سننا پسندکرتی۔ اسکے علاوہ پرشانت نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی بہت کامیابی سے کیا جس کے ذریعے انہوں نے نریندر مودی کا ہر شب کئی بھارتی شہروں میں بیک وقت ہولوگرام کے ذریعے خطاب کرنے کا اچھوتا اور ان دیکھا منصوبہ پیش کیا۔
انہوں نے مودی کیلئے انکے ماضی میں چائے بیچنے کی مناسبت سے چائے پر چرچہ سمیت کئی دلچسپ اور اچھوتے تصورات کو میڈیا اور کیمپین سٹریٹجی میں استعمال کیا۔ یوں مودی دوہزار چودہ میں بڑی اکثریت سے ملک کے وزیر اعظم بنے۔
پہلے پہل پرشانت کشور نے حکومت میں مودی کے ساتھ کام کیا لیکن بیوروکریسی انکے آڑے آئی اوران کی نریندر مودی سے راہیں جدا ہوگئیں۔دوہزار پندرہ میں انہوں نے آئی پیک نامی ایک ادارہ تشکیل دیا ، جس نے ریاست بہار میں نتیش کمار کو تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بنانے میں مدد دی۔ نتیش کمار نے جیتنے کے بعد انہیں اپنا مشیر مقرر کیا لیکن وہاں بھی وہ روایتی سیاستدانوں اور بیوکریسی کے ہاتھوں تنگ آکر راہیں جدا کرنے پر مجبور ہوگئے۔
دوہزار سترہ میں انہیں پنجاب میں کانگریس پارٹی نے ہائر کیا اور انہوں نے کامیاب حکمت عملی کے ذریعے کیپٹن امریندر سنگھ کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنوایا، دو ہزار انیس میں جگن مون ریڈی کے ساتھ کام کرتے ہوئے انہیں اندھرا پردیش کا وزیر اعلیٰ بنوایا، دوہزار بیس میں دہلی کے ریاستی انتخابات میں اروند کیجریوال نے انکی خدمات حاصل کیں۔ دوہزار اکیس میں ممتا بینر جی نے بنگا ل میں پرشانت کشور کی مدد سے بی جے پی کےخلاف انتخابات جیتے، دوہزار اکیس میں ہی انہوںنے تامل ناڈو کے اسمبلی انتخابات میں ایم کے سٹالن کو وزیر اعلیٰ منتخب کروایا۔
انہیں صرف ایک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بھی اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں جہاں وہ کانگریس کیلئے کام کر رہے تھے۔ لیکن تمام تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ پرشانت کشور نے جو مشورے دیے انہیں کانگریس کی جانب سے نظر انداز کیا گیا اور انکے پلان پر عمل در آمد نہ کیا گیا ۔ لیکن پرشانت نے اس ناکامی کی ذمہ داری خود قبول کی۔
باقی تمام انتخابات میں پرشانت کشور کوکیمپین ڈیزائن کرنے اور اس پر عمل کروانے کیلئے وسیع اختیارات دیے گئےجس سے انہیں اپنے کلائنٹس کیلئے بی جے پی اور دیگر جماعتوں کے منہ سے کامیابی کا نوالہ چھیننے کا موقع ملا۔ یاد رہے کہ یہ تمام انتخابات اور انکے نتائج انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ دوہزار چودہ کے بعد سے ملک بھر میں بی جے پی اور مودی کی مقبولیت میں پے پناہ اضافے کے ساتھ ساتھ امیت شاہ کی قیادت میں جو کیمپین چلائی گئیں ان میں بے پنا ہ وسائل کے ساتھ ساتھ مذہب، ذات پات اور دیگر ذرائع کا بے دریغ استعمال کیا گیااور آر ایس ایس کے بھگتوں نے بھی گراس روٹ لیول پر بہت مدد کی۔ مرکز میں انتہائی طاقتور حکومت کو ریاستوں میں ہرانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرورتھا، بالخصوص نتیش کمار کو بہاراور ممتا بینرجی کو بنگال میں تیسری دفعہ وزیر اعلیٰ بنوانا آسان نہیں تھا۔ کیوں کہ ان ریاستوں میں نتیش کمار اور ممتا کے خلاف anti incumbancyکے جذبات پہلے سے موجود تھے۔
دوہزار اکیس میں جب ممتا بینر جی کی جماعت ترینا مول کانگریس پارٹی نے انتخاب جیتا تو اس سے قبل پرشانت کشور نے بھارت کے متنازع صحافی ارناب گوسوامی کے ساتھ انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ اگر بی جے پی نے بنگال اسمبلی میں سو سے زائد سیٹیں جیت لیں تو وہ ہمیشہ کیلئے سیاسی کنسلٹنسی کے پیشے کا خیر آباد کہہ دیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا، گوکہ ان انتخابات میں بی جے پی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوالیکن وہ صرف ۷۷ سیٹیں ہی جیت سکی۔ حالانکہ بنگال میں بی جے پی کی کیمپین کی نگرانی خود امیت شاہ کر رہے تھے اسکے باوجود پرشانت کی جینئس نے ممتا کی حکومت بچا لی۔ گوکہ بی جے پی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا لیکن ترینامول کانگریس کی ووٹ بینک میں بھی کمی نہ ہوئی بلکہ اڑتالیس فیصد اضافہ ہوا۔
باوجوداس بات کےکہ بی جے پی نے سو سے زیادہ سیٹس نہیں حاصل کیں ،پرشانت کشور نے پھر بھی آئی پیک سے علیحدگی اور سیاسی کنسلٹسی کے پیشے کو خیر آباد کہتے ہوئے عملی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ انکی کچھ عرصہ کانگریس پارٹی سے بھی بات چیت چلی لیکن انکے مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے ۔ کانگریس انہیں دوہزار چوبیس کے عام انتخابات کیلئے ساتھ ملانا چاہتی تھی اور انہیں عہدہ بھی دینے کو تیار تھی لیکن پرشانت کا تجزیہ کچھ یوں تھا کہ گو کہ کانگریس پارٹی وہ واحد جماعت ہے جو متحدہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر بی جے پی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن نہرو گاندھی خاندان کی جماعت پر چھاپ کو ہٹائے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہو سکتا، اسکے علاوہ وہ چاہتےتھے کہ انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے کانگریس پارٹی اپنے آپ کو ملک بھر میں از سر نو منظم کرے۔ اسکے علاوہ وہ جلد از جلد ایک متحدہ اپوزیشن محاذ کی تشکیل کے بھی خواہش مند تھے ۔ انکی ایک شرط یہ بھی تھی کہ انکو انکے کام کیلئے مکمل چھوٹ دی جائے اور انہیں اپنی حکمت عملی کے نفاذ میں رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انکی بیشتر شرائط کو تو مان لیا گیا لیکن نہرو گاندھی خاندا ن کے بیک فٹ پر جانے اور از سر نو تنظیم ، جس کے نتیجہ میں کئی سینئر کانگریسی رہنماوں کو قیادت نئی نسل کو سونپنے کی شرائط کو قبول نہ کیا گیا۔
پرشانت جانتے تھے کہ آئندہ انتخابات ، سیکولر بھارت کو بچانے کا آخری موقع ہیں اور اسے مکمل طور پر ہندوتوا کی داعی طاقتوںکے شکنچے سے بچانے کیلئے کانگریس کو یہ قربانیاں دینی پڑھیں گی۔ کیوں کہ گانگریس نے گزشتہ دس برس میں نوے فیصد انتخابات میں شکست کا سامنا کیا ہے اسلیے بغیر کسی بنیادی اور ریڈیکل تبدیلی کے مودی اور بی جے پی کی طاقتور مشینری کو شکست دینا تو دور کی بات اسکے سامنے بند باندھنا ہی ناممکن ہوگا۔
مجھے بطور ایک مبصر کےکوئی شک و شبہ نہیں کہ اگر بی جے پی کی پے پناہ طاقت کا مقابلہ کوئی کرسکتا ہے تو وہ پرشانت کشور کا دماغ ہے۔ لیکن وہ بھی اپنی توجہ شاید عام انتخابات میں کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے بہار سے عملی سیاست میں حصہ لینے کی جانب مبذول کرچکےہیں۔ اگر دوہزار بائیس ختم ہونے سے پہلے کانگریس اور متحدہ اپوزیشن کا پرشانت کشور کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوجاتا ہے تو پاکستان میں بیٹھے منصوبہ ساز دوہزار چوبیس کے انتخابا ت کے نتیجہ میں ایک مختلف بھارت کی توقع کر سکتےہیں۔

#bjp#modi#PakTurkNews#salmanahmadlali#salmanlalicongress partygandhi nehruindiaindian politicsprashant kishor