بھارت میں ریاستی انتخابات:کیا بی جے پی ناقابل شکست ہے؟

 

تحریر:سلمان احمد لالی

بھارت میں پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے نتائج سے ایک بات واضح ہوچکی ہےکہ ملک میں دائیں بازوکے سیاسی رجحانات کو مزید تقویت حاصل ہوئی ہے اور بھارت اپنی سیکولر شناخت سے بہت دور ہوچکا ہے۔پانچ میں سے چار ریاستوں میں بی جے پی کی فیصلہ کن جیت نے ثابت کردیا کہ 2024میں بھی اپوزیشن کی دال گلنے والی نہیں۔ بالخصوص سب سے بڑی ریاست اتر پردیشن میں مسلسل دوسری مرتبہ فتح حاصل کرنا بھارتی سیاسی تاریخ میں ایک انوکھا واقع ہے کیوں کہ یہ ریاست دوسرا موقع نہ دینے کی شہرت کی حامل ہے اور کئی دہائیوں سے یہاں ایک پارٹی دوسری مرتبہ جیت نہیں پائی مگر بی جے پی نے یہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
ان نتائج میں ایک اور سرپرائز عام آدمی پارٹی کی پنجاب میں جیت ہے جس نے ایک سیلابی ریلے کی مانندپنجاب کے سیاسی طاقت کے روایتی مراکز کو بہا دیا ہے۔ ہندوستان کی سیاست میں عام آدمی پارٹی اور اروند کیجریوال کو سنجیدگی سے نہ لینا اکالی دل اور کانگریس کیلئے مہلک ثابت ہوا ہے۔
بی جے پی کے برعکس کانگریس پارٹی کی کارگردگی تمام ریاستوں میں انتہائی مایوس کن رہی ۔ یوپی میں راجیو گاندھی کی بیٹی پریانکاگاندھی آئی این سی کی سٹار کمپینر تھیں لیکن وہ بھی کوئی کرشمہ نہ دکھا سکیں۔
علاقائی جماعتوں نے بی جے پی کے ریلے کے آگے بند باندھنے کی کسی حدتک کوشش اور قوت ارادی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن انکی کوششیں بھی سنگھ پریواراور بی جے پی کے پیسے اور طاقت سامنے کارگرثابت نہ ہوسکیں۔
اتر پردیش میں اکیلاش یادو کی جماعت سماج وادی پارٹی نے کسی حدتک بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اپنے ووٹ بینک کو دوگنا تک بڑھانے میں کامیاب رہے لیکن یوگی ادتیاناتھ اور مودی ,شاہ کی جوڑی کا جادو کا توڑ کرنے میں ناکام رہے ۔
اس پس منظر میں عام آدمی پارٹی کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ اپنی قیام کے ۱۰ سالوں کے اندر AAPنے پنجاب سے کانگریس اور بادل خاندان کے زیر قیادت اکالی دل کا صفایا کردیا ہے اور تو اور اسے گوا میں بھی دو نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ لیکن پنجاب کی بات سب سے پہلے کرتے ہیں جہاں اکالی دل کے سپریمو پرکاش سندھ بادل جنہوں نے اپنے حلقے سے دس بار الیکشن جیتا اور پانچ بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے ، وہ اپنی سیٹ ہارگئے۔ زندگی کے اس موڑ پر 94سالہ بادل کیلئے یہ سیٹ ہارنا کسی صدمے سے کم نہیں ہے۔
عام آدمی پارٹی کی زبردست لہر نے کئی بڑے سیاسی ناموں کو باہر کا دروازہ دکھا دیا۔ کیپٹن امریندر سنگھ کے بعدسامنے آنے والے چرنجیت سنگھ چنی جو پنجاب کے 32فیصد دلتوں کے نمائندہ تصور ہوتے تھے اور ریاست کے پہلے دلت وزیر اعلیٰ تھے سے لے کر نوجوت سندھ سدھوتک کئی اہم رہنما وں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔چنی چمکور صاحب اور بھدور میں اپنی دونوں سیٹیں عام آدمی پارٹی کے امیدواروں سے ہار گئے۔79سالہ کیپٹن امریندر سنگھ جو آخری مہاراجہ پٹیالہ کے بیٹے اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ ہیں نے کانگریس کی جانب سے انہیں حکومت سے نکالنے کا بدلہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے لیا۔ لیکن برا ہو ان AAP والے مڈل کلاسیوں کا جنہوںنے لوگوں کے مہاراجہ کے نام سے جانے جانے والے امریندر سنگھ کی عمر رسیدگی کابھی خیال نہیں رکھا اور انہیں اسمبلی کی نشست سے محروم رکھا۔
اب پنجاب میں بادل ، امریندر سنگھ ، چنی کے بجائے AAP کے بھگونت مان وزیر اعلیٰ بنیں گے جوپہلے کامیڈین رہ چکے ہیں۔ اسے کہتے ہیں مکافات عمل۔ لیکن کانگریس اور اکالی دل والے اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے حوالے سے کوئی اچھی شہرت نہیں رکھتے ۔ دیکھتے ہیں کہ AAPپنجاب میں دہلی کی طرح گورننس کا نظام بہتر بنا پاتی ہے یا نہیں۔
پنجاب کے علاوہ باقی چاروں ریاستوں اتر پردیش، منی پور، اترا گھنڈ اور گوا میں بی جے پی نے فتح حاصل کرکے 2024کے لوک سبھا انتخابات کیلئے اپنی پوزیشن مستحکم کرلی ہے۔ یوپی میں بی جے پی نےگزشتہ انتخابات میں 40فیصد ووٹ حاصل کیے اور حالیہ انتخابات میں اسنے ووٹنگ شئیر میں چار فیصد اضافہ کیا ہے۔گوکہ زیادہ تربھارتی تجزیہ کار اور مبصرین امید کر رہے تھے کہ کسانوں کے احتجاج، سماج وادی پارٹی کی بڑھتی مقبولیت بی جے پی کے ووٹ شیئر کو کم کرنے میں مدد دے گی۔
سماج وادی پارٹی گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اپنے ووٹ دوگنا تک بڑھانے میں کامیاب رہی لیکن کانگریس اور مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی کی انتہائی بری کارکردگی کی وجہ سے وہ بی جے پی کو نقصان پہنچانے میں ناکام رہے۔
بہوجن سماج پارٹی کی انتہائی خراب کارکردگی نے یوپی کی تین مرتبہ وزیر اعلیٰ رہنے والی مایاوتی کے سیاسی مستقبل پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔یو پی کے 22فیصد دلت ووٹوں پر آہنی گرفت رکھنے والی مایاوتی کا ایک بھی دلت امیدوار اس بار اسمبلی تک نہیں پہنچ سکے گا۔ بہوجن سماج پارٹی کے واحد امیدوار جنہیں کامیابی ملی ہے اوما شنکر سنگھ ہیں۔بہوجن سماج پارٹی نے 2004میں لوک سبھا کی 19سیٹیں جیتی تھیں جبکہ 2009میں انکے 20ایم پی تھے۔ 2007میں مایاوتی جب تیسری بار یوپی کی وزیر اعلیٰ بنیں تو بہوجن سماج پارٹی کا ووٹ شیئر 206ایم ایل ایز کے ساتھ 30فیصد تھاجو کم ہوکہ 2022میں 12فیصد رہ گیا ہے۔
گوکہ یوپی میں یوگی ادتیہ ناتھ کی قیادت میں بی جے پی فیصلہ کن فتح حاصل کرچکی ہےلیکن یوگی حکومت کے کئی کیبنٹ ممبر اپنے اپنے حلقوں سے ہار گئے جن میں سابق نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریا بھی ہیں ۔ موریا کی شکست بی جے پی کیلئے ایک بڑے دھچکے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہےکہ 2024میں بی جے پی کے جواب میں اپوزیشن کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے ۔ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس مسلسل تنزلی کا شکار ہے اور اسکی اعلیٰ قیادت میں اختلافات کوئی راز کی بات نہیں ۔گاندھی خاندان ایک بار پھر شدید تنقید کی زد میں ہے ۔دیگر اپوزیشن جماعتیں علاقائی طور پر تو اہمیت رکھتی ہیں لیکن مرکز میں کانگریس کے علاوہ کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جو بی جے پی کو ٹکر دے سکے۔ حالیہ نتائج نے یہ ثابت کیا ہے کہ سماج وادی پارٹی کا یوپی میں مسلم ووٹ پر انحصار اسے ایک مضبوط اپوزیشن پارٹی کے طور پر تو آگے لاسکتا ہے لیکن فتح نہیں دلا سکتا ۔ اسی طرح مرکز میں 2024میں اگر اپوزیشن کو بی جے پی کو ہرانا ہے تو اسے سنگھ پریوار کی پچ پر آکر کھیلنا ہو گا یعنی ہندو ووٹر کو لبھانا ہوگا۔ بی جے پی ووٹ شیئر کے لحاظ سے پورے ملک کی 49.6فیصد آبادی کو کنٹرول کرتی ہے۔
مودی شاہ کا گیم پلان بالکل واضح ہے کہ 50فیصد ہندو ووٹ حاصل کریں اور جیتیں ۔ وہ مسلمان اور دیگر اقلیتوںکے ووٹ کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔
لیکن کانگریس میں ideological clarityنہ ہونے کی وجہ سے فی الحال یہ ممکن نہیں ہےلگتا کہ وہ بی جے پی کے بنیادی ووٹر کو اپنی جانب راغب کرسکے۔ سیکولرزم کا پرچار اور سنگھ پریوار پر انتہاپسندی اور ملک کو معاشرتی تقسیم سے دوچار کرنے کے الزامات سے کام چلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ دوسری جانب کانگریس تنظیمی لحاظ سے بھی بہت ہی بکھری ہوئی اور غیر متحد جماعت ہے۔ گاندھی خاندا ن کی مقبولیت میں کمی نے بہت سے مقامی اور دوسرے درجے کے رہنماوں کو قابو سے باہر کردیا ہے جس کی وجہ سے جماعت مربوط انداز میں بی جے پی کو چیلنج کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اسکے مقابلے میںبی جے پی بے پناہ دولت اور طاقت کے ساتھ ساتھ انتہائی مضبوط تنظیمی ڈھانچے اور آر ایس ایس کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے مخالفین کو ہر میدان میں چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
لیکن سب سے دلچسپ امر یہ ہے کہ یوگی ادتیہ ناتھ کی فتح نے مودی ، شاہ کی راتوں کی نیند اڑا دی ہے ۔یوگی کو مودی کا متبادل سمجھاجارہا ہے اور ان کے اختلافات کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔ نریندر مودی تو یوگی ادتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار بھی نہیں بنانا چاہتے تھے لیکن آر ایس ایس کے دباو میں آکر وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اگر یوگی کی خواہش وزیر اعظم بننے کی ہے تو مودی ، شاہ کو اپوزیشن سے بڑا چیلنج اس پروہت سیاستدان سے ہوگا جو سیکولرزم تو دور کی بات ، کھلے عام مسلمان مخالف جذبات کا اظہار اپنے بیانات میں کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل کہاکہ یو پی الیکشن بیس فیصد بمقابلہ اسی فیصد کے درمیان ہے، بیس فیصد سے انکی مراد یوپی کے بیس فیصد مسلمان تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی سیاست پر ہندتوا کا رنگ چڑھ چکا ہے اور وہاں سیکولرزم صرف نام کی ہی رہ گئی ہے۔

salmanlali87@gmail.com

#aap#amitshah#bjp#bsp#gandhi#GOA#hindutva#inc#manipur#modi#PakTurkNews#punjab#rss#salmanlali#sp#stateelections#UP#yadav#yogiadityanath#پاک ترک نیوز، #سلمان لالی، #بھارتی ریاستی انتخابات، #عام آدمی پارٹی #بی جے پی، #کانگریس، #گاندھی، #مودی، #امیت شاہ، #اترپردیش، #گوا، #پنجاب، #نوجوت سدھو، #اکالی دل، #یوگی ادتیہ ناتھ، #ہندوتوا،india