ماسکو(پاک ترک نیوز)
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے مشرقی یوکرین میں ماسکو کے حمایت یافتہ دو علیحدگی پسند علاقوں کی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے روسی افواج کو ان علاقوں میں داخل ہونے کا حکم دیا ہے۔
بظاہر امن کے قیام کیلئے فوج بھیجنے کے حکم نے کشیدگی میں ڈرامائی طور پر اضافہ کیا ہے جس سے کسی بھی وقت جنگ ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
امریکہ اور یورپ کی جانب سے بارہا انتباہات اور کڑی پابندیوں کی دھمکیوں کے باوجودپیوٹن کو روکا نہ جاسکا۔
پیوٹن نے اپنے ٹی وی خطاب میں مغرب کے بہت سے خدشات کی تصدیق کرتے ہوئے ڈونیٹسک عوامی جمہوریہ، اور لوہانسک عوامی جمہوریہ کو آزاد ریاستوں کےطور پر تسلیم کرلیا اور دنیا کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئےکہ انکا سامنا کے جی بی کے سابق افسر سے ہے جو انسے بالکل مرعوب نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ یوکرین مغرب کی کٹھ پتلی ریاست ہے اور یہ امریکہ اور یورپ کی مدد سے جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔انہو ں نے کہا روس کیلئے خطرہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے اور ماسکو اپنی سلامتی کی خاطر جوابی اقدامات کرنے کا پورا حق رکھتا ہے۔
پیوٹن نے روسی وزارت دفاع کو حکم دیا کہ ان نو آزاد ریاستوں کی حفاظت اور امن کے قیام کیلئے فوج بھیج دی جائے۔نو آزاد ریاستوں روس کے ساتھ معاہدے میں ماسکوکو اپنے فوجی اڈے قائم کرنے کا اختیار بھی دیا ہے۔
تاہم روس نواز علیحدگی پسند ڈونیٹسک اور لوہانسک پر مکمل کنٹرو ل نہیں رکھتے ، اسکا زیادہ ترحصہ ابھی بھی کیف کے کنٹرول میں ہےجبکہ علیحدگی پسند پینسٹھ سو مربع میل علاقے میں صرف ایک تہائی حصے پر قابض ہیں۔
بائڈن انتظامیہ اور یورپی ممالک نے پیوٹن کے اعلان کی سخت مذمت کی ہے اور اسے یوکرین کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔
یوکرین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس بلانےکی درخواست کی ہے ، جبکہ واشنگٹن روس پر کڑی پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہا ہے۔ امریکہ انتظامیہ کے مطابق روسی فوجیوں کا ڈونباس منتقل ہونا بذات خود کوئی نیا اقدام نہیں ہے کیوں کہ روس افواج گزشتہ آٹھ برس سے ڈوناس کے علاقے میں غیر اعلانیہ طور پر موجود ہیں۔